دماغی رسولی کی 87 فیصد درست تشخیص کرنے والا بلڈ ٹیسٹ
برمنگھم:: خون کی بدولت بہت سے امراض کی تشخیص کی جاتی ہے لیکن اب ایک سادہ بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے دماغی سرطان کی درست ترین شناخت کرنا ممکن ہے جس میں درستی کی شرح 87 فیصد ہے۔
گلاسگو میں واقع یونیورسٹی آف اسٹریچ کلائیڈ کے پروفیسر میتھیو جے بیکر اور ان کے ساتھیوں نے یہ اختراع کی ہے اور اس کا مقالہ نیچر کمیونی کیشن میں شائع ہوا ہے۔
پروفیسر میتھیو کا کہنا ہے کہ ’ ہم پہلی مرتبہ کلینکل مطالعے کے اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں اور اس کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ خون کا یہ ٹیسٹ تجربہ گاہ میں کام کرسکتا ہے،‘۔
برین کینسر پاکستان سمیت پوری دنیا میں پھیل رہا ہے لیکن اس کی شناخت بہت مشکل ہوتی ہے۔ اس کی عام وجوہ میں یادداشت کی کمی ، دردسر اور چکر وغیرہ شامل ہیں لیکن عین یہی علامات دیگر کئی امراض کی بھی ہوتی ہیں۔ اسی بنا پر دماغی سرطان کئی مرتبہ نظر انداز ہوجاتا ہے۔
ہر مریض میں اس کی ظاہری علامات مختلف ہوتی ہیں اور کبھی کبھی بہت دیر میں ظاہر ہوتی ہیں۔ دوسری جانب اگر علاج نہ کرایا جائے تو 33 فیصد مریض ہی مرض کے پانچ سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔
یہ ٹیسٹ کم خرچ ہے اور آسان ہے جس میں خون کے نمونے پر انفراریڈ روشنی ڈال کر بایو سگنیچرز تلاش کیے جاتے ہیں اور اس میں مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جب اسے 104 افراد پر آزمایا گیا تو اس نے کئی بار 87 فیصد درست نتائج دیئے جس کا مطلب ہے کہ 100 میں سے 87 فیصد مریضوں میں یہ دماغی کینسر کو درست طور پر بھانپ سکتا ہے۔
زیادہ تفصیل میں جائیں تو یہ کسی درد یا دماغ کو نقصان پہنچائے بغیر ایسا عمل ہے جسے اے ٹی آر ایف ٹی آئی آر اسپیکٹرو اسکوپی کے ذریعے انجام دیا گیا ہے جس میں کمپیوٹر اور مصنوعی ذہانت سے مدد لی گئی ہے۔