غذا میں فولاد کی مقدار بتانے والا کاغذی سینسر
الینوائے: ترقی پذیر اور غریب ممالک میں بالخصوص بچے غذائی قلت کے شکار ہوتے ہیں اور ان کے کھانوں میں ضروری اجزا ناپنے والے نظام بہت مہنگے ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر امریکی ماہرین نے کاغذ کا کم خرچ سینسر بنایا ہے جو اسمارٹ فون کے ذریعے کام کرتے ہوئے کھانے میں فولاد کی مقدار ناپ سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف الینوائے کے ماہرین کی اس ایجاد میں کیمیا، غذائی سائنس، کمپیوٹر، انجینئرنگ اور دیگر میدانوں سے مدد لی گئی ہے لیکن اس کے باوجود یہ کم خرچ ، دیرپا اور مؤثر ہے۔ اس کام کی سربراہ اینا والر ہیں اور اس کا تفصیلی مقالہ جرنل نیوٹریئنٹس میں شائع ہوا ہے۔
یہ ایک سادہ اور دیرپا کاغذی سینسر ہے جس سے حاصل شدہ ڈیٹا کی تفصیل سیل فون پر دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کا ڈیٹا کلاؤڈ پر شامل کرکے پورے ملک کی غذا میں فولاد کی مقدار یا کمی بیشی کا احوال معلوم کیا جاسکتا ہے اور ماہرین کے مطابق یہ عالمی ادارہ صحت کے معیارات کے عین مطابق ہے۔
لیکن اس ایجاد کے لیے درست ترین کاغذ کا انتخاب ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس کے لیے انہوں نے سلیکون پر مشتمل ہائڈرو فوبک (پانی دھکیل) کاغذ استعمال کیا جس سے بالکل درست نتائج حاصل ہوتے ہیں اور سینسر بھی بہتر بنتا ہے۔
اگلے مرحلے میں اینا نے کیمیا کا پس منظر استعمال کرتے ہوئے دیکھا کہ آخر فولاد کے ساتھ کونسا ری ایکشن ہے جس سے کاغذ کا رنگ بدل سکتا ہے جسے فیروزائن ری ایکشن بھی کہتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے مائع کی مقدار کم کردی اور اس کی مائیکرولیٹر مقدار کاغذ پر ڈال کر اسے خشک کردیا اور سینسر بنایا۔
اس کے بعد اسے تنزانیہ میں فولاد والے آٹے اور شیر خوار بچے کے فارمولے سے بھی آزمایا گیا اور رنگ بدلنے کی صورت میں ایپ اس کا تجزیہ کرکے غذا میں فولاد کی مقدارنوٹ کرکے بتاتی ہے۔
کئی ممالک میں کیے گئے تجربات سے کاغذ کے سینسر کی افادیت سامنے آئی ہے لیکن اب بھی حتمی پراڈکٹ سے قبل کئی مراحل موجود ہیں جن سے گزرنے کے بعد ہی یہ ایجاد بازار میں پیش کی جاسکے گی۔