ذیابیطس پر نظر رکھنے والی عینک تیار
ساؤ پالو: برازیل اور امریکی سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر ایسی عینک تیار کرلی جو آنکھوں کی نمی سے ذیابیطس کے مریضوں کے خون میں شکر کی مقدار معلوم کرسکتی ہے۔
خون میں شکر ناپنے کے لیے عموماً سوئی چبھو کر خون کا ایک قطرہ نکال کر گلوکومیٹر پر رکھا جاتا ہے۔ یہ تکلیف دہ عمل دن میں بار بار کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے کم تکلیف دہ طریقے کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے۔ بسا اوقات اس طریقے میں انفیکشن بھی ہوجاتا ہے۔
برازیل میں ساؤ کارلوس کیمسٹری انسٹی ٹیوٹ کے انجینئر لیاس سانیاٹی برازیکا کے مطابق آنسو میں بہت سے میٹابولائٹس ہوتے ہیں جو خون کی کیفیت کو ظاہر کرسکتے ہیں۔ اس طرح انہیں جانچ کر خون میں شکر کی مقدار کا پتا لگانے کا غیرتکلیف دہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔
برازیلی ماہرین نے جسمانی مائعات بالخصوص آنسو میں ایک طرح کا خامرہ ( اینزائم) ’گلوکوز آکسیڈیز‘ دریافت کیا ہے جو بدن میں خون کی مقدار کا پتا دے سکتا ہے۔ اس طرح آنسو سے نہ صرف بدن میں خون بلکہ وٹامن اور الکحل کی کم یا زیادہ مقدار بھی معلوم کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے ایک بایو سینسر بنایا گیا ہے جو خون میں گلوکوز آکسیڈیز کی کمی بیشی کو ایک سگنل کی صورت میں ظاہر کرتا ہے۔
بایومیڈیکل استعمال کے لیے دنیا بھر میں کئی طرح کے بایوسینسر استعمال کیے جارہے ہیں۔ برازیلی ماہرین نے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے شعبہ نینو انجینئرنگ کے تعاون سے یہ سینسر عینک کی کمانیوں میں لگایا ہے لیکن اس کی تاریں ناک پر جمنے والے پیڈز سے جڑی ہیں جس پر سینسر لگائے گئے ہیں۔ آنسو لانے کے لیے مریض کو مصنوعی طریقے سے آنکھوں کو نم کرنا ہوتا ہے۔
پیڈز پر آنسو گرتے ہی گلوکوز آکسیڈیز کی وجہ سے سینسر میں الیکٹرون کا بہاؤ متاثر ہوتا ہے جسے کمانیوں میں لگا سرکٹ پروسیس کرکے اسمارٹ فون یا کسی بھی دوسرے پلیٹ فارم پر ظاہر کرسکتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اسے تبدیل کرکے خون میں الکحل اور وٹامن کی کمی بیشی کا بھی پتا لگایا جاسکتا ہے۔ اس طرح مریض گھر بیٹھے نہایت آسان طریقے سے ذیابیطس کا ٹیسٹ کرسکتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر 38 کروڑ افراد اس مرض کا شکار ہیں اور 2035ء تک دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 58 کروڑ تک جاپہنچے گی۔