چین نے امریکی ’جی پی ایس‘ کا جواب بھی تیار کرلیا
بیجنگ: یوں تو امریکا کو زندگی کے تقریباً ہر ایک شعبے میں چین کی جانب سے زبردست مقابلے کا سامنا ہے لیکن اس سال امریکی ساختہ گلوبل پوزیشننگ سسٹم (جی پی ایس) کا چینی جواب ’’بیدو تھری‘‘ (BeiDou-3) سٹیلائٹ بیسڈ نیوی گیشن سسٹم بھی مکمل ہو کر جی پی ایس کو چیلنج دے رہا ہوگا۔
چینی خبر رساں ایجنسی ژنہوا کے مطابق، زمین کے گرد مدار میں گردش کرتے ہوئے مصنوعی سیارچوں سے رہنمائی کے جدید ترین منصوبے ’’بیدو تھری‘‘ کے آخری دو سیارچے اس سال یعنی 2020 کے دوران ہی خلاء میں پہنچا دیئے جائیں گے۔ اس طرح نیوی گیشن سٹیلائٹ سسٹم کا چینی نظام بھی اپنے 35 سیارچوں کے ساتھ مکمل ہوجائے گا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بیدو تھری اپنی تکمیل سے پہلے ہی اس قابل ہوچکا ہے کہ عام شہریوں کو 5 میٹر ریزولیوشن کے زمینی نقشے فراہم کرسکے۔ (یعنی ایسے ڈیجیٹل نقشے جن میں چھوٹے سے چھوٹا ایک نقطہ 5 میٹر لمبی اور 5 میٹر چوڑی کسی چیز کو ظاہر کرتا ہو۔)
البتہ عسکری مقاصد کےلیے یہ ریزولیوشن 10 سینٹی میٹر یا اس سے بھی کم ہے۔ دیگر تفصیلات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ فی الحال بیدو تھری کی عسکری خدمات پوری دنیا میں صرف دو ممالک کی افواج کو حاصل ہیں: عوامی جمہوریہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی؛ اور مسلح افواجِ پاکستان۔ سی پیک اور ’ون بیلٹ ون روڈ‘ منصوبے کے انفرا اسٹرکچر کی خلائی نگرانی کا کام بھی اسی نظام سے لیا جائے گا۔
اگر بیدو تھری کا موازنہ جی پی ایس سے کیا جائے، جس سے حاصل ہونے والی سٹیلائٹ تصاویر کا ریزولیوشن 20 فٹ سے 1 فٹ تک ہوتا ہے، تو بیدو تھری کو بلاشبہ جی پی ایس کا چینی حریف بھی قرار دیا جاسکتا ہے