اسمارٹ فون کی مدد سے جینیاتی ٹیسٹ کرنے والا آلہ تیار
بیجنگ: ماچس کی ڈبیا سے بھی چھوٹا ایک جدید آلہ بنالیا گیا جو اسمارٹ فون کی بجلی سے ڈی این اے کا تجزیہ کرتے ہوئے کئی جینیاتی کیفیات کا جائزہ لے سکتا ہے۔
اس وقت ڈی این اے کو تجربہ گاہ کے بڑے اور مہنگے آلات پر ہی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف چین کی آرمی میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر منگ چین اور ان کی ٹیم نے تھری ڈی پرنٹر سے بنائے گئے بعض پرزوں سے ایک آلہ بنایا ہے جو کم خرچ، تیز رفتار اور بہت مؤثر ہے، یہ آلہ اپنی توانائی اسمارٹ فون سے کشید کرتا ہے اور کسی بھی اسمارٹ فون سے چلایا جاسکتا ہے۔
جسمانی مائعات مثلاً خون، لعاب اور پیشاب وغیرہ کے نمونوں سے یہ سسٹم ڈی این اے پڑھ سکتا ہے۔ اس کا وزن صرف 60 گرام اور قیمت صرف 10 ڈالر کے لگ بھگ ہوسکتی ہے۔ ایک مرتبہ نمونہ شامل کرنے کے 80 منٹ کے اندر اندر یہ اپنا نتیجہ ظاہر کردیتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ آلہ اسمارٹ فون کی حرارت سے چلتا ہے۔ نلکی نما ڈٹیکٹر میں پہلے سے ہی بعض کیمیکل شامل ہوتے ہیں اور اگر ڈی این اے کا نمونہ پچھلے سے یکسانیت رکھتا ہے تو اس کیمیکل کا رنگ بدل جاتا ہے یا روشنی خارج کرتا ہے۔ اس کے سگنل اسمارٹ فون کیمرے تک جاتے ہیں اور ڈسپلے پر نتائج ظاہر ہوتا ہے۔
ابتدائی تجربات میں اس آلے نے خون میں ایلفا اور بی ٹا تھیلیسیمیا جیسی کیفیات کو بخوبی نوٹ کرلیا۔ بعض افراد کے گال سے رگڑے گئے لعاب کے پھائے سے ان کا جینیاتی تجزیہ کرکے یہ بھی بتادیا کہ ان میں سے کونسے افراد شراب نوشی سے زہر خورانی کے شکار ہوسکتے ہیں۔
دوسری جانب یہ نظام دودھ اور دریا وغیرہ میں ای کولائی بیکٹیریا بھی شناخت کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کیوی کے پھلوں کو متاثر کرنے والا ایک اور بیکٹیریئم بھی اسی سسٹم سے نوٹ کیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگرعام تجربہ گاہ سے موازنہ کیا جائے تو اسمارٹ فون نظام 97 فیصد درستی سے کام کرتا ہے۔ معمولی کوشش سے یہ آر این اے کی شناخت بھی کرسکتا ہے اور اس کے بعد کورونا وائرس پہچاننے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔