دماغ کی اندرونی چوٹ کا پتا لگانے کے ’سونگھنے کے ٹیسٹ‘ میں پیش رفت
کیمبرج: سر کی اندرونی چوٹوں کو ابتدائی طور پر مریض کے ہوش اور شعور کے تحت بھی پرکھا جاتا ہے لیکن اب ایک مطالعے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ سونگھنے کے بعض ٹیسٹ اس ضمن میں بہت مفید ثابت ہوسکتے ہیں اور مریض کے دماغی چوٹ اور کیفیت کا بہتر اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہ سروے کیمبرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت مریضوں کے شعور اور ہوش کے تحت دماغی چوٹ کا جو اندازہ لگایا جاتا ہے اس میں غلطی کا 40 فیصد تک امکان ہوتا ہے۔ اس سے مریض کا علاج مشکل سے ہوتا ہے بلکہ اس کی بحالی میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔ اس ضمن میں کیمبرج کےماہرین نے ایک سروے کیا ہے جو کہنے کو تو بہت چھوٹا مطالعہ ہے لیکن اس سے بعض نئے انکشافات ہوئے ہیں۔
مایرین کے مطابق اگر بو خوشگوار نہ ہو تو انسان چھوٹے چھوٹے سانس لیتا ہے کیونکہ دماغ بدبو کو مسترد کرتا ہے۔ دوسری جانب سونگھنے کے ٹیسٹ کی بدولت دماغ کے جاگنے، سونے اور بے ہوشی کے مختلف مدارج کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے 43 مریضوں کو بوتلوں میں بند مختلف اقسام کے اشیا سونگھائی گئیں۔ ناک میں جانے والی ایک چھوٹی ٹیوب کے ذریعے ان میں سانس لینے کا دورانیہ نوٹ کیا گیا۔ ان میں خوشبودار شیمپو اور بدبودار مچھلی کی بو بھی شامل تھی اور ایک ایسی درمیانی بو بھی تھے جو نہ تو خوشبو تھی اور نہ ہی بدبو تھی۔ اس دوران سانس لینے کا عمل نوٹ کیا گیا۔
جو مریض معمولی ہوش میں تھے انہوں نے ساری بو پر ایک جیسا ردِ عمل ظاہر کیا۔ بعض مریضوں نے گہرے سانس لیے اور بعض نے کم گہرے سانسوں کا مظاہرہ کیا۔
یہ سروے ساڑھے تین برس تک جاری رہا۔ جن مریضوں نے سونگھنے کے ٹیسٹ میں اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا ان کی 100 فیصد تعداد ہوش میں آئی اور 91 فیصد اب بھی زندہ ہے۔ لیکن کسی بھی خوشبو یا بدبو پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہ کرنے والے 63 فیصد افراد لقمہ اجل بن گئے۔
اس لحاظ سے سونگھنے کے ٹیسٹ کی زبردست افادیت سامنے آئی ہے جس کی بدولت دماغی چوٹوں میں مبتلا افراد کے ٹھیک ہونے کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔