کشمیر اور پاکستان کیلیے نرم گوشہ رکھنے والے جوبائیڈن کی ممکنہ کامیابی سے بھارت خوف زدہ

واشنگٹن: امریکی صدارتی انتخاب میں صدر ٹرمپ پر برتری رکھنے والے جوبائیڈن کی جیت کے امکانات روشن ہیں جس کے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان پر مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

جوبائیڈن امریکا کے منجھے ہوئے سیاست دان ہیں جو 1970ء میں کونسلر منتخب ہونے کے بعد سے مسلسل پارلیمانی سیاست کا بھی حصہ رہے ہیں اور 1973ء سے امریکی رکن بالا کے رکن منتخب ہوتے آئے ہیں۔

ڈیمو کریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے 77 سالہ جوبائیڈن اوباما دور حکومت میں نائب صدر کے فرائض بھی نبھاتے رہے ہیں اور رواں صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹس کے امیدوار ہیں۔

ایک اچھے منتظم اور غیر جانب دارانہ رائے رکھنے کی شہرت رکھنے والے جوبائیڈن کے نائب صدارت کے دور اور بطور سینیٹر بھی پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔

جوبائیڈن کو سابق صدر آصف علی زرداری کے دور حکومت میں 2008ء کو پاکستان کے دوسرے بڑے سویلین ایوارڈ ہلال پاکستان سے نوازا گیا تھا۔ یہ اعزاز سینیٹر جوبائیڈن اور رچرڈ لوگر کو پاکستان کے لیے 1.5 بلین ڈالر کی امداد منظور کرانے کے لیے کی جانے والی کوشش کے اعتراف میں دیا گیا تھا۔

جوبائیڈن نے ہمیشہ سے کشمیریوں کے موقف کی تائید کرتے ہوئے بھارت سے مظلوم کشمیریوں کو آزادی اظہار رائے اور خود مختاری دینے کا مطالبہ کیا ہے اور مودی سرکار کی جانب سے گزشتہ برس کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے وفاق کے تحت دو حصوں میں تقسیم کرنے کے عمل کی بھی مخالفت کرتے ہوئے پرانی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ڈیموکریٹ امیدوار جوبائیڈن انسانی حقوق کی سر بلندی کے لیے کام کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور چین میں یغور مسلمانوں پر جبر کے خلاف آواز اُٹھاتے آئے ہیں۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران جوبائیڈن نے مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک اور تارکین وطن شہریوں کو بہتر سہولیات کی فراہمی اور صدر ٹرمپ کی تارکین وطن مخالف پالیسیوں پر نظر ثانی کا بھی وعدہ کیا تھا۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے