ریٹائرڈ ججوں، جرنیلوں اور سیکریٹریوں کے لیے حکومت نے خزانے کا منہ کھول دیا
اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد عمران خان نے عوام کے ٹیکس کے پیسوں کی حفاظت کرنے اور کفایت شعاری اپنانے کا اعلان کیا تھا تاکہ حکومتی اخراجات کو کم کر کے پیسہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جائے لیکن وزیراعظم عمران خان کے دوسرے دعووں اور وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا۔
موجودہ حکومت ، جس نے عوام کے ٹیکس کے پیسوں کی حفاظت کرنا تھی ، نے ریٹائرڈ ججوں، جرنیلوں اور سیکریٹریوں کے لیے خزانے کا منہ کھول دیا ہے۔ قومی اخبار میں شائع رپورٹ میں صحافی و تجزیہ کار انصار عباسی نے انکشاف کیا کہ سرکاری ملازمین کی ریٹائرڈ اشرافیہ (جرنیل، ججز اور وفاقی سیکریٹریز) یا پھر مختلف کیڈرز اور گروپس میں ان کے مساوی عہدوں پر کام کرنے والے سابقہ سرکاری ملازمین کو حکومت دوبارہ بھرتی کرکے انہیں ٹیکس دہندگان کی جیبوں سے بھاری اور مکمل تنخواہیں ادا کر رہی ہے جبکہ سرکاری خزانے سے انہیں پنشن الگ سے ملتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے حاضر سروس جرنیل، سپریم کورٹ کے ججز بشمول چیف جسٹس پاکستان اور وفاقی سیکریٹریز کو نقصان ہو رہا ہے کیونکہ ان کے ریٹائر ہو جانے والے ساتھیوں کو مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد بھی ذمہ داریاں دی جاتی ہیں۔ انصار عباسی کا کہنا تھا کہ وفاق اور صوبوں میں ایسے کئی اہم عہدے ہیں جن پر ریٹائر ہو جانے والے ملازمین کو دوبارہ بھرتی کرکے ٹیکس دہندگان کی جیبوں سے ادائیگیاں کی جا رہی ہیں حالانکہ ملک کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔
وزیراعظم کے ایک اہم مشیر سے جب رابطہ کیا گیا اور اُن سے معلوم کیا گیا کہ حکومت کی سرکاری ملازمین کی اشرافیہ پر اس دریا دلی کا سبب کیا ہے تو انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ پالیسی کے جائزے کی ضرورت ہے ا ور حکومت اس معاملے کو پے اینڈ پنشن کمیشن کو بھیج سکتی ہے۔ انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق سرکاری دستاویزات دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کو وفاق میں اہم عہدہ حاصل ہے اور وہ ماہانہ 24لاکھ روپے سرکاری خزانے سے وصول کر رہے ہیں۔
اُن جیسے کئی لوگ وفاق اور صوبائی حکومتوں میں دوبارہ بھرتی کیے گئے ہیں اور انہیں سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کے مساوی تنخواہ دی جا رہی ہے اور ماہانہ پینشن الگ وصول کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق وفاق میں اہم عہدے پر موجود سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کو جملہ لاکھ 13 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے جس میں 12 لاکھ 39ہزار روپے بنیادی تنخواہ، 6 ہزار روپے ٹیلی فون الائونس جبکہ 68 ہزار روپے گھر کا کرایہ (ہائوس رینٹ) شامل ہے۔
اس کے علاوہ، انہیں پنشن کی مد میں 9 لاکھ 28 ہزار روپے ملتے ہیں جس میں 8؍ لاکھ 15 ہزار 133 روپے پنشن جبکہ 56 ہزار 465 روپے خصوصی اضافی پنشن، میڈیکل الائونس برائے پنشنر کی مد میں 45 ہزار 799 روپے جبکہ 11 ہزار 450 روپے کا میڈیکل الائونس برائے 2015ء بھی شامل ہے۔ انہوں نے مزید انکشاف کر تے ہوئے بتایا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ریٹائرڈ ججز اور ان کے اہل خانہ کو دوبارہ بھرتی کیے جانے کے بعد ان کی موجودہ ملازمتوں میں بھی طبی سہولتیں حاصل ہیں لیکن اس کے بعد بھی پنشنر کی حیثیت سے انہیں بھاری بھر کم میڈیکل الائونس ملتا ہے۔
ریٹائرڈ ججوں کو ڈرائیور کی سہولت حاصل ہے اور انہیں پیٹرول کی مد میں بھی ماہانہ رقم اور دیگر مراعات وغیرہ بھی حاصل ہیں لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ بھرتی کیے جانے پر بھی انہیں ان مراعات سے زیادہ ہی مل رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریٹائرڈ سیکریٹریز اور ریٹائرڈ جرنیلوں کے معاملے میں دیکھیں تو اگرچہ ان کی پنشن ریٹائرڈ ججوں کے مقابلے میں کم ہے لیکن زیادہ تر کیسز میں یہ ریٹائرڈ جرنیل اور ریٹائرڈ سیکریٹریز اہم عہدوں پر نظر رکھے ہوتے ہیں تاکہ دوبارہ بھرتی ہو کر بھاری تنخواہیں بھی وصول کر سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت میں اہم ترین سرکاری اداروں جن میں ریگولیٹری اتھارٹیز، خود مختار اور نیم خود مختار ادارے، وفاقی و صوبائی پبلک سروس کمیشنز، پلاننگ کمیشنز، نیب، سی پیک اتھارٹی، ایسے کمرشل اداروں جو دفاعی شعبہ جات وغیرہ میں آتے ہیں، ان میں اکثر و بیشتر ریٹارڈ سرکاری ملازمین کو دوبارہ بھرتی کیا جاتا ہے حتیٰ کہ ایسے عہدوں کی تنخواہیں اور مراعات اس قدر شاندار کر دی جاتی ہیں جو حاضر سروس سیکریٹری یا پھر جرنیل کو ملنے والی مراعات سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ ریٹائرڈ لوگ نہ صرف اپنے حاضر سروس ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ تنخواہیں وصول کرتے ہیں بلکہ پنشن کے بھی مزے لیتے ہیں۔