حکومت نے اپوزیشن سے اکثریت کے باوجود سینیٹ کی چیئرمین شپ چھین لی، صادق سنجرانی کامیاب

اسلام آباد:حکومت نے اپوزیشن کے پاس ایوان میں اکثیرت ہونے کے باوجود سینیٹ کی چیئرمین شپ چھین لی ہے اور صادق سنجرانی ایک مرتبہ پھر سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہو گئے ہیں ۔

چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے ایوان میں ووٹنگ کا مکمل ہونے کے بعد مزید 20 منٹ 5 بجے تک جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کا انتظار کیا گیا لیکن وہ نہیں آئے ۔جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد ووٹ نہ ڈالنے کا اعلان کر چکے ہیں ۔آج چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے 98 سینیٹرز نے ووٹنگ میں حصہ لیا۔ واضح رہے کہ حکومت کے پاس 47 جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی تعداد 51 ہے لیکن ووٹنگ کا عمل خفیہ بیلٹ کے ذریعے مکمل ہواہے ۔

سب سے پہلا ووٹ جے یو آئی کے رہنما ور ڈپٹی چیئرمین کے امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری نے کاسٹ کیا ۔ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کا انعقاد منتخب ہونے والے چیئرمین سینیٹ کریں گے ۔حروف تہیجی کے اعتبار سے سینیٹرز کو ووٹ ڈالنے کیلئے آواز دی جاتی رہی۔اس سے قبل ایوان میں قائم کیے گئے پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمرے برآمد ہوئے جس پر اپوزیشن کی جانب سے ہنگامہ آرائی اور احتجاج کیا گیا لیکن معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے پریزائڈنگ افسر نے فوری طور پر نیا پولنگ بوتھ لگانے کا حکم دیا اور تحقیقات کی ہدایت کی ۔

تفصیلات کے مطابق پریزائیڈنگ آفیسر سینیٹر مظفر حسین کی زیر صدارت ایوان بالا کے اجلاس جاری ہے ، جس دوران حکومت اور اپوزیشن کے امیدواروں کے مابین سینیٹ کے نئے چیئرمین ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے لیے اہم معرکہ شروع ہو چکا ہے ۔پریزائڈنگ افسرمظفر حسین شاہ نے ووٹنگ کا آغاز کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ارکان شام 5 بجے تک ووٹ کاسٹ کرلیں، شفاف الیکشن کا وعدہ پورا کردیا ہے، ارکان پولنگ بوتھ میں جاکرتسلی کرسکتے ہیں، ہر 25 ووٹ کے بعد اسٹیمپ کوبدل دیاجائےگا،پولنگ بوتھ میں کیمرہ،موبائل فون لے جانا منع ہے، پولنگ شام 5 بجے بند کردی جائےگی۔

سینیٹ کے ہنگامہ خیز انتخابات کے بعد ایوان بالا کے چیئرمین اور نائب چیئرمین کے لیے ہونے والے انتخابی معرکے میں تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد کے امیدوار صادق سنجرانی اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار ہیں۔نائب چیئرمین کے لیے اپوزیشن نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیئر رہنما مولانا عبدالغفور حیدری جب کہ حکومت نے سابق فاٹا سے سینیٹر منتخب ہونے والے مرزا محمد آفریدی کو میدان میں اتارا ہے۔سینیٹ رولز کے مطابق دونوں امیدواروں کے درمیان مقابلے کی صورت میں ایک امیدوار کو ایوان کے اراکین کی مجموعی تعداد کی اکثریت یعنی کم از کم 51 فیصد ووٹ حاصل کرنا ہوں گے۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے