2023 کے عام انتخابات میں کون سا بیانیہ اپنایا جائے، ن لیگ کی قیادت کنفیوژن کا شکار
لاہور: 2023 کے عام انتخابات میں کون سا بیانیہ اپنایا جائے، ن لیگ کی قیادت کنفیوژن کا شکار ہو گئی۔سینئر صحافی کامران خان کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی قیادت فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ 2023 کے عام انتخابات میں مفاہمت کا بیانیہ لے کر بڑھنا ہے یا مزاحمت کا۔پارٹی میں دونوں بیانیوں کی مخالفت اور حمایت موجود ہے۔ایک بیانیہ جارحانہ ہے دوسرا مفاہمانہ ہے۔
یا ٹھندے دماغ سے معتدل بیانیہ، معتدل بیانیہ کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔شہباز شریف کا بیانیہ جڑ پکڑ رہا ہے۔ان کو یقین ہے کہ نواز شریف بھی اس کے قائل ہو جائیں گے۔کامران خان کے پروگرام میں ہی گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ موجودہ حکمران سلیکٹڈ، دھاندلی کے ذریعے آئے، نیا عمرانی معاہدہ کیا جائے، گارنٹی دیتا ہوں نواز شریف مان جائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ ملی تو سابق وزیراعظم وعدے پر پورا اتریں گے، قومی مفاد کیلئے نواز شریف کے پاؤں پکڑنے کو بھی تیار ہوں، مریم کو سیاست کا حق ہے، چودھری نثار سے 30 سالہ تعلق غلط موڑ پر ٹوٹا، حلف پر کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں، کوئی ایک جماعت کسی کو نکالنے یا رکھنے کی مجاز نہیں ہے۔
میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ عدالت نے میرٹ پر میری ضمانت منظور کی، ہائیکورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ میرے خلاف کیسز بلا جواز ہیں۔ کرپشن، کک بیکس، منی لانڈرنگ اور ٹی ٹیز کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔ عدالت سے ضمانت کے بعدنجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں پہلا باضابطہ انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے پاس میرے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ہے