ایف اے ٹی ایف کا پاکستان کو گرے لسٹ میں برقراررکھنے کا اعلان
برسلز: فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کے صدر نے کہا کہ مختلف ممالک سے متعلق معاملات پر بات کی گئی اور گھانا کو گرے لسٹ سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ پاکستان بدستور گرے لسٹ میں رہے گا. ایف اے ٹی ایف کے صدر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اجلاس میں کئی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا انہوں نے کہا کہ گھانا نے گرے لسٹ کے حوالے بہتر کام کیا ہے اور اس کو گرے لسٹ سے ہٹا دیا گیا ہے
انہوں نے کہا کہ پاکستان بدستور نگرانی میں رہے گا. پاکستان نے 2018 کے ایکشن پلان کے 27 میں سے 26 شرائط پوری کرلیں ایف اے ٹی ایف نے کہا کہ فروری 2021 سے اب تک پاکستان نے 3 میں سے 2 اقدامات کر لیے، پاکستان نے 27 میں سے 26 اہداف حاصل کر لیے ہیں.
ایف اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی پیش رفت پر اطمینان ہے، پاکستان کو سزا کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا ایف اے ٹی ایف کے مطابق یو این کے نامزد کردہ 1373 دہشت گردوں کو سزائیں دینا ہوں گی، پاکستان کو آخری شرط سے منسلک 6 نکات پر عمل کرنا ہوگا. واضح رہے کہ پاکستان کو 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا،
ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو 27 نکات پر عمل درآمد کرنا تھا اور گزشتہ اجلاس تک پاکستان نے 24 نکات اور حالیہ اجلاس سے قبل 26 نکات پر عملدرآمد کرلیا تھا جب کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی 40 میں سے 31 سفارشات کے مطابق کمپلینٹ ریٹنگ حاصل کرلی تھی اور پاکستان کو ایشیا پیسیفک گروپ کی توسیع شدہ سے’ ’فالواپ فہرست“ میں بھی شامل کرلیا گیا تھا.
جس کے بعد پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات روشن تھے ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کا ایک حصہ قانون سازی اور اس پر عمل درآمد پر مشتمل ہے جس کے لیے پاکستان نے پچھلے ایک سال میں 14 قانونی نکات پرکام کرلیا ہے، اسی طرح کسٹمز، منی لانڈرنگ و ٹیررازم فنانسنگ سے متعلق ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کی گئی ہیں. بین الاقوامی مالیاتی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا ورچوئل اجلاس آج اختتام پذیر ہوا ہے پاکستان کو امید تھی کہ وہ اس مرتبہ گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے گا تاہم ایف اے ٹی ایف کے صدر نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں برقراررکھنے کا اعلان کیا .
اس سے قبل رواں سال فروری میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو چار مہینوں کی مہلت دی گئی تھی اور ایف اے ٹی ایف کی طرف سے اس وقت جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو تین شعبوں میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے. ان شعبوں میں نامزد شدت پسندوں یا جو ان کے لیے یا ان کی جگہ کام کر رہے ہیں، ان پر مالی پابندیاں لاگو کرنا‘ دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات اور مقدمات اور ان افراد یا اداروں کو ٹارگٹ کرنا، جو ان کی جگہ کام کر رہے ہیں اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف متناسب یا مکمل پابندیوں کی صورت میں کارروائی شامل ہے.
پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے گذشتہ کچھ عرصے میں کئی قانون متعارف کروائے ہیں ان قوانین میں انسداد منی لانڈرنگ قوانین میں ترامیم، انسداد دہشت گردی قانون میں ترامیم، وقف پراپرٹیز قانون، میوچل لیگل اسسٹنس قانون سمیت 14 وفاقی اور تین صوبائی قوانین شامل ہیں. وفاقی وزیر برائے توانائی اور ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے معاملات دیکھنے والے حماد اظہر نے4 جون کو اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی 40 میں سے 31 سفارشات کو پورا کر لیا ہے اور صرف دو سالوں میں ایسی کارکردگی ایف اے ٹی ایف کی تاریخ میں کسی ملک نے حاصل نہیں کی.
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک عالمی ادارہ ہے، جس کا قیام 1989 میں جی سیون سمٹ کی جانب سے پیرس میں عمل میں آیا، جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کی روک تھام تھا تاہم 2011 میں اس کے مینڈیٹ میں اضافہ کرتے ہوئے اس کے مقاصد بڑھا دیے گئے. ان مقاصد میں بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھنا اور اس حوالے سے مناسب قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات طے کرنا تھا ادارے کے کل 38 ارکان میں امریکہ، برطانیہ، چین اور بھارت بھی شامل ہیں جبکہ پاکستان اس کا رکن نہیں۔
ادارے کا اجلاس ہر چار ماہ بعد، یعنی سال میں تین بار ہوتا ہے، جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی جاری کردہ سفارشات پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے.
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس عمومی طور پر انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور ان کے نفاذ کی نگرانی کرتا ہے جن ممالک کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں تو ان کی نشاندہی کی جاتی ہے اگرچہ ایف اے ٹی ایف خود کسی ملک پر پابندیاں عائد نہیں کرتا مگر ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں.
ایف اے ٹی ایف ممالک کی نگرانی کے لیے لسٹوں کا استعمال کیا جاتا ہے جنہیں گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کہا جاتا ہے‘بلیک لسٹ میں ہائی رسک ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جن کے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور قواعد میں سقم موجود ہو ان ممالک کے حوالے سے قوی امکان ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک ان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں.