امریکا افغانستان میں نوے کی دہائی والی غلطی دہرارہا ہے‘معید یوسف
اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ امریکہ دو دہائیوں کی محنت اور کاوشوں کے بعد افغانستان کو عدم استحکام کی حالت میں چھوڑ کر کیوں جا رہا ہے یہ بات سمجھ سے بالا ہے واشنگٹن کے انخلا کا عمل خطے اور افغانوں کے لیے بڑا المیہ ہے امریکی نشریاتی ادارے”وائس آف امریکہ“سے خصوصی انٹرویو میں معید یوسف نے کہا کہ امریکہ کا افغانستان سے انخلا ذمہ دارانہ نہیں بلکہ نوے کی دہائی جیسی غلطی ہے جس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہونے کا خدشہ ہے.
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بارہا یہ کہا ہے کہ امریکی و اتحادی افواج کا انخلا ذمہ دارانہ ہونا چاہیے لیکن امریکہ کا افغانوں کے درمیان کسی سمجھوتے کے بغیر جانا غیر ذمہ دارانہ عمل ہے قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ امریکہ افغانستان کو اس حال میں چھوڑ کر جا رہا ہے کہ چاہے افغان آپس میں لڑتے رہیں یا خطے میں بدامنی پھیلتی ہے تو پھیلے یہی وہ غلطی تھی جو نوے کی دہائی میں دنیا نے کی تھی اور کہا تھا کہ دوبارہ نہیں دہرائیں گے.
معید یوسف کے مطابق افغانستان میں امریکہ نے بڑی سرمایہ کاری کی ہے اور وہ ایسا کیوں چاہے گا کہ وہاں معاملات تباہی کی طرف جائیں لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے پاکستان کی جانب سے افغانستان کے مسئلے کے حل کے سوال پر معید یوسف کہتے ہیں کہ افغان دھڑوں میں مفاہمت کے لیے پاکستان آخر وقت تک کوشش کرے گا سیاسی مفاہمت پیدا کرنے کے لیے پاکستان جو کوششیں کر سکتا تھا وہ بروئے کار لائیں گے تاہم فیصلہ افغان قیادت اور امریکہ کو کرنا ہے جو براہِ راست افغان مسئلے کے فریق ہیں.
انہوں نے کہا کہ ہم یہ کوششیں اس لیے بھی کر رہے ہیں کیوں کہ ہم افغانستان میں خانہ جنگی نہیں چاہتے، اس کے سب سے زیادہ اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے معید یوسف نے کہا کہ افغانستان دنیا کا مسئلہ ہے اور عالمی طاقتیں اسے حل کرنے میں ناکام ہو گئی ہیں لیکن پاکستان اس کے حل کو تلاش کرے گا کیوں کہ ہمیں اس خطے میں رہنا ہے
طالبان کو مذاکرات کے لیے قائل کرنے اور پاکستان کے کردار کے حوالے سے سوال پر معید یوسف نے کہا کہ افغانستان میں دیرپا امن اور خطے میں استحکام کے لیے پاکستان نے طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر قائل کیا جس کی بدولت دوحہ امن معاہدہ طے ہوا تاہم دوسرے مرحلے میں بین الافغان سمجھوتے کے لیے کابل انتظامیہ پر کسی قسم کا دباﺅدکھائی نہیں دیا.
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے معاملے پر پاکستان نے ہر ممکن حد تک مدد و تعاون کیا ہے اور اس سے زیادہ کچھ کرنا ممکن نہیں انہوں نے کہاکہ طالبان پاکستان کے تابع نہیں البتہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے ہم انہیں مذاکرات کی میز پر ضرور لے کر آئے تھے مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ افغان تنازع کے حل کے لیے پاکستان صرف سہولت کار کا کردار ادا کرسکتا ہے جو ہم کر رہے ہیں اور امریکہ بھی کئی بار کہہ چکا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان ایک تعمیری شراکت دار ہے.
معید یوسف نے کہا کہ جب افغانستان سے متعلق پاکستان مشورہ دیتا تھا تو یہ کہا جاتا تھا کہ مداخلت ہو رہی ہے اور جب پاکستان مشورہ نہیں دیتا تو کہا جاتا ہے کہ پاکستان کچھ کر نہیں رہا لیکن جب افغان مسئلے کی ناکامی کا ملبہ ڈالنے کی بات آئی تو توپوں کا رخ پاکستان کی طرف ہو گیا یہ بہت غیر مناسب ہے. افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان 20 سال سے کہہ رہا ہے کہ افغان تاریخ اور خطے کے حالات کے تناظر میں جنگ کی صورت میں کامیابی ممکن نہیں لہذا سیاسی مفاہمت کے ذریعے ہی مسئلے کا حل نکالا جائے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی قیادت نے افغانستان پر بہت وقت اور توانائیاں صرف کی ہیں لیکن اس قدر محنت کے باوجود ’ڈو مور‘ سننا بہت زیادتی ہے انہوں نے کہا کہ ڈو مور کیا، اگر پالیسی ہی غلط ہو تو آپ آسمان بھی توڑ لائیں تو نتیجہ نہیں نکلے گا.
انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں مفاہمت کے لیے خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر کام کر رہا ہے تاہم ماضی میں بگاڑ پیدا کرنے والے ممالک ایسا نہیں چاہیں گے انہوں نے کہا کہ پاکستان اس بات کا ہر گز خواہش مند نہیں کہ افغانستان میں حکومت کون کرے گا، کون نائب ہو گا یا گورنر کون ہو گا یہ فیصلے افغان عوام کو کرنا ہیں اور پاکستان بارہا یہ کہہ چکا ہے.
طالبان کی ممکنہ حکومت کو تسلیم کرنے کے سوال پر معید یوسف نے کہا کہ جب وقت آئے گا تو بتائیں گے معید یوسف نے کہا کہ پاکستان آج بھی امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات اور ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہش مند ہے لیکن وسیع تر تعلقات کی خواہش کے ساتھ یہ واضح کر دیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مشترکہ مفادات پر کام کریں گے اگر پاکستان اپنے مفاد اور نظریے پر کھڑا ہوتا ہے اور اس بنیاد پر امریکہ ناراض ہوتا ہے تو یہ مناسب عمل نہیں ہو گا کیوں کہ واشنگٹن بھی اپنے مفادات کے خلاف نہیں جائے گا.
انہوں نے کہا کہ پاکستان سے متعلق امریکی نظریے میں تبدیلی آئی ہے۔