رانا شمیم نے تاثر دیا کہ ہائیکورٹ کے تمام ججز کامپرومائزڈ ہیں
اسلام آباد : رانا شمیم بیان حلفی کیس میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اوپن کیس ہے اور ہمارا احتساب بھی ہے۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں رانا شمیم بیان حلفی کی خبر پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس ااسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے عدالت کو بتایا کہ بیان حلفی اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع ہو چکا ہے۔ رانا شمیم پہلے دن والے اپنے بیان پر قائم ہیں۔ اصل بیان حلفی سیل کیا ہوا تھا اور اب عدالت کے حکم پر پاکستان لایا گیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بیان حلفی کا لفافہ سربمہر اسی حالت میں موجود ہے، ہم نے ابھی تک نہیں کھولا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت چاہتی ہے کہ آپ اپنا سربمہر لفافہ خود کھول لیں۔رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ پھر ایک نئی انکوائری شروع ہو جائے گی۔ عدالت نے رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی کو بھی عدالتی معاون مقرر کردیا ہے، عدالتی معاون فیصل صدیقی نے اپنا جواب تحریری طور پرعدالت کو جمع کروایا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اٹارنی جنرل صاحب کوصحت دے، جوباکس اسلام آباد ہائی کورٹ کو موصول ہوا اس کومزید سیل کرتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میڈیا کا کردار ثانوی ہے۔
رانا شمیم نے مانا ہے کہ اخبار میں جو لکھا گیا وہ انکے بیان حلفی میں موجود ہے۔ جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رانا شمیم نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے تمام ججز کو مشکوک کر دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اخبار میں چھپنا ضمنی بات ہے ، رانا شمیم مانتے ہیں کہ جو چھپا وہی ہے جو اصلی ہے، آپ کے کلائنٹ مانتے ہیں کہ اخبار میں جو چھپا ہے وہ ان کے بیان حلفی کے مطابق ہے،
آپ نے معاونت کرنی ہے کہ آپ کا تین سال بعد دیا جانے والا بیان حلفی عدلیہ کے لحاظ سے مشکوک نہیں ہے، رانا شمیم نے بہت بڑی بات کہہ دی کہ پوری ہائی کورٹ کے ججز کمپرومائز ہوئے ہیں، کوئی اس ہائی کورٹ کے ججز پر انگلی نہیں اٹھا سکتا، تین سال بعد ایک بیان حلفی دے کر اس کورٹ کی ساکھ پر سوال اٹھایا گیا، اس بیان حلفی نے اس ہائی کورٹ کو مشکوک بنادیا ہے۔