سخت معاشی اقدامات : حکومتی اتحاد میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں
اسلام آباد: پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اس کے علاوہ فیول ٹیرف میں اضافے اور مزید سخت اقدامات سے 11 جماعتوں کی اتحادی حکومت میں معاملات خراب ہونا شروع ہوگئے ہیںایک طرف شہباز شریف حکومت عوام کے بڑھتے دباﺅ کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے تو دوسری جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت کی جانب سے عام انتخابات کے اعلان اسمبلیاں تحلیل کرنے کے لیے دباﺅ بڑھ رہا ہے.
جماعت اسلامی نے حکومتی اتحاد میں شامل نہیں مگر ابھی تک پارلیمان میں موجود ہے وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر مظاہرے کررہی ہے جب کہ عمران خان نے احتجاجی منصوبے کے دوسرے مرحلے کا اعلان آج ہفتے کے روز کرنا ہے ادھر کراچی پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم (پاکستان) کے درمیان اختلافات شروع ہوگئے ہیں.
نجی ٹی وی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف جانتے ہیں کہ اگر کوئی بھی اتحادی جماعت الگ ہوئی تو ان کے اور حکومت کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے ساتھ معاملات ٹھیک نہیں ہیں اور حکومتی اتحاد کے اجلاسوں میں بی اے پی اور اے این پی سمیت متعدد اتحادی جماعتیں شریک نہیں ہورہیں پچھلے دنوں حکومتی اتحای جماعتوں کے اہم سربراہی اجلاسوں میں صرف چار جماعتیں مسلم لیگ نون‘پیپلزپارٹی‘ایم کیوایم اور جمعیت علمائے اسلام(ف)شریک ہوتی رہی ہیں.
سندھ میں مفادات کے ٹکراﺅ کے باعث پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان اختلافات شدت اختیار کررہے ہیں جنہیں ختم کرنے کے لیے مذاکرات کے دو راﺅنڈز ہوچکے ہیں جس میں ایم کیو ایم کے مطالبات سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم اور ایم کیو ایم کنوینر خالد مقبول صدیقی کا بیان بریکنگ پوائنٹ ہوسکتا ہے.
رپورٹ میں باوثوق ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کچھ سخت فیصلوں کے بعد بڑھتے دباﺅ کے تناظر میں حکمران اتحاد کے سربراہوں کے اجلاس میں اختلافات کی رپورٹس آئی ہیں جو وفاق میں ایک ووٹ پر قائم شہبازشریف حکومت کے لیے نیک شگون نہیں ہے.