بلوچ طلبہ گمشدگی کیس؛ وزیراعظم آئندہ سماعت پر عدالت طلب
اسلام آباد: بلوچ طلبہ جبری گمشدگی سے متعلق کمیشن کی سفارشات پر عملد رآمد کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔
دوران سماعت عدالت نے وزرا کی قائم کردہ کمیٹی کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل کو عدالت طلب کرلیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی ، جس میں اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن نے وزرا کمیٹی کے اجلاس کی ایک صفحے پر مشتمل 6 نکات کی رپورٹ پیش کی، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ کی کاپی واپس کردی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اس رپورٹ پر اس عدالت کے لیے یہ شرم کا مقام ہے ۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو احساس ہونا چاہیے تھا کہ یہ بلوچ طلبہ کا معاملہ ہے ۔ بلوچ لاپتہ طلبہ کی جانب سے ایڈووکیٹ ایمان مزاری عدالت کے سامنے پیش ہوئیں۔
بعد ازاں وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی، جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت پر وزیر اعظم کو طلب کر لیا۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے وزیراعظم اور وزرا کو طلب نہ کرنے کی استدعا کی، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ۔ سب مذاق بنایا جا رہا ہے ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا توہین ہوگی اس ملک کے لوگوں کے ساتھ جب لوگ لاپتا ہورہے ہیں ۔
عدالت نے استفسار کیا کہ وزارت دفاع سے کون ہے ؟، جس پر وزارت دفاع کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ وزیر دفاع کو کہیں اگلی سماعت پر پیش ہوں۔وزیر داخلہ کو کہیں وہ بھی پیش ہوں، کوئی فرق نہیں پڑتا ان کی پیشی سے ۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے جن کو بلا رہے ہیں ۔ ہم اسلام آباد میں بیٹھ کر بلوچستان کے حقوق کی بات کر رہے ہیں ۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ 7 روز کا وقت دیتا ہوں، عمل درآمد کریں ۔
عدالت نے بلوچ طلبہ کی عدم بازیابی پر وزیراعظم کو 29 نومبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر دفاع، وزیر داخلہ ، سیکرٹری دفاع ، سیکرٹری داخلہ بھی پیش ہوں ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کمیشن کی شفارشات کے مطابق 55 لاپتا بلوچ طلبہ پیش کریں نہیں تو وزیر اعظم پیش ہوں ۔