چیف جسٹس نے کیسز براہ راست نشریات کاگھریلو نقصان بتا دیا
اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ براہ راست نشریات کی کچھ ڈاون سائیڈز بھی ہیں،گھر جاتا ہوں تو بیگم کہتی ہیں آپ ٹھیک سے نہیں بیٹھے تھے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنے کورٹ اسٹاف کوپہلے کبھی اہمیت نہیں دی۔یہ پہلی بار ہے کہ ہم کورٹ سٹاف کو بھی جوڈیشل اکیڈمی میں تربیت دیں گے۔
چیف جسٹس بنا تو پتا چلا کہ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کا چیئرمین بھی ہوں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہاکہ جوڈیشل اکیڈمی مختلف علاقوں ، صوبوں سے آئے ججز کو اکٹھے کرنے کا ذریعہ ہے۔ججز اکیڈمی آکر اپنے تجربات سے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاتے ہیں،فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی مضبوط بورڈ کےتحت کام کر رہی ہے۔
بورڈ کےاراکین میں تمام اہم شخصیات شامل ہیں۔
اکیڈمی مختلف علاقوں ،صوبوں سے آئے ججز کو اکٹھا کرنے کا ذریعہ ہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نےاپنی تعیناتی کےبعداکیڈمی میں بنیادی تبدیلیاں کیں۔عدالتی عملے کو وہ اہمیت نہیں ملتی جو ملنی چاہیئے۔48ہزار کورٹ اسٹاف کو پہلے نظر انداز کیا جاتا تھا۔ اکیڈمی کی کامیابی میں ہم سب کی کامیابی ہے۔ملک بھر میں3200ججزفرائض سرانجام دے رہے ہیں۔درخواست گزاروں کا پہلا واسطہ سول ججز سے پڑتا ہے۔
سول ججز تربیت یافتہ ہوں گے تو اعلیٰ عدلیہ پر کیسز کا دباؤ کم ہوگا۔ٹیکنالوجی قلم کی طرح اہم ہے ،یہ علم کیلئےاہم ذریعہ ہے۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بطور چیف جسٹس پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کوبراہ راست نشر کیا۔براہ راست سماعت سے عام شہری بھی انصاف ہوتا دیکھے گا۔لوگوں میں یہ اعتماد بحال کرانا ضروری ہے کہ انصاف ہورہا ہے۔براہ راست کارروائی کےحوالے سےشفافیت یقینی بنائی گئی۔براہ راست کارروائی سےججز و دیگر کو سیکھنے کا موقع ملے گا۔قانون کے طالبعلم کیسز کی براہ راست نشریات سے مستفید ہوسکتے ہیں۔عدلیہ کے ساتھ اختلاف رائے ہر شہری کا حق ہے،مکمل اختلاف رائے کے باوجود ادب اور احترام ضروری ہے۔