بھارت پاکستان کوکیا چیز فراہم کرے گا؟ عالمی عدالت انصاف کا تفصیلی فیصلہ

دی ہیگ (مانیترنگ ڈیسک)عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کیس میں پاکستان کو بڑی فتح مل گئی جبکہ بھارت کو منہ کی کھانی پڑی، عالمی عدالت انصاف نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی بریت کی درخواست مسترد کر دی‘ بھارت کو اس کا جاسوس واپس نہیں مل سکتا نہ ہی سزا ختم کی گئی۔ کلبھوشن کو قونصلر رسائی مل گئی‘ پاکستان کو سزائے موت پر نظرثانی کرنے کا کہا گیا ہے۔
دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف کے جج عبدالقوی احمد یوسف نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے کیس کا 42صفحات پر مشتمل فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت ویانا کنونشن کے رکن ہیں۔ بھارت نے ویانا کنونشن کے تحت کلبھوشن یادیو کیس میں قونصلر رسائی مانگی ہے ہم مقدمے کی تفصیلی شقوں کی طرف نہیں جانا چاہتے پاکستان نے بھارتی موقف کیخلاف تین اعتراضات پیش کئے۔ پاکستان کا موقف تھا کہ بھارت نے پاکستان کلبھوشن یادیو کی شہریت کے اصلی دستاویزات نہیں دکھائے اور پاکستانی مطالبہ پر کلبھوشن کے اصل پاسپورٹ نہیں دکھایا۔ عالمی عدالت نے کہا کہ کلبھوشن بھاری شہری ہے اس کا حسین مبارک پٹیل اور فضل پٹیل کے نام سے جاری پاسپورٹس اصلی ہیں جو بھارتی حکومت نے جاری کئے ہیں۔ یادیو حسین مبارک پٹیل کے نام پر 17 بار بھارت سے باہر گیا اور بھارت آیا۔ کلبھوشن یادیو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہا تاہم ویانا کنونشن جاسوسی کرنے والے قیدیوں کو قونصلر رسائی سے محروم نہیں کرتا۔ پاکستان نے ویانا کنونشن میں طے شدہ قونصلر رسائی کے معاملات کا خیال نہیں رکھا۔

پاکستان کا موقف تھا کہ کلبھوشن جعلی پاسپورٹ اور نام سے پاکستان میں داخل ہوتا رہا۔ کلبھوشن یادیو کے کیس میں ویانا کنونشن کا اطلاق نہیں ہوتا۔ عدالت نے پاکستانی موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کلبھوشن بھاری شہری ہے پاکستان کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے جبکہ بھارت پاکستان کو کلبھوشن یادیو کا اصلی پاسپورٹ فراہم کرے۔ عالمی عدالت انصاف میں بھارت کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے کیس کے ملٹری ٹرائل اور بریت کی درخواست پر کہا کہ کلبھوشن کے خلاف مقدمہ اور اس کی سزا ویانا کنونشن کی خلاف ورزی نہیں پاکستان نے یادیو کی گرفتاری کے فوراً بعد بھارت کو آگاہ کیا۔ پاکستان میں یادیو کو سنا گیا اور اپیل کا حق بھی دیا گیا۔ کلبھوشن یادیو کی بریت کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ یادیو پاکستانی تحویل میں ہی رہے گا تاہم پاکستان سزائے موت پر نظرثانی کرے۔ عدالت نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے عدالت کے اختیارات سماعت کو چیلنج کرنے کی درخواست مسترد کی جاتی ہے جبکہ کلبھوشن یادیو کو بھارت کے حوالے کرنے اور پاکستان کی ملٹری کورٹ سے سزا ختم کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی گئی

پاکستان کے ایڈہاک جج جسٹس تصدق جیلانی نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا۔اختلافی نوٹ میں تصدق جیلانی نے مقف اپنایا کہ ویانا کنونشن جاسوسوں پر لاگو نہیں ہوتا۔جسٹس تصدق جیلانی نے لکھا کہ ویانا کنونش لکھنے والوں نے جاسوسوں کو شامل کرنے سوچا بھی نہیں ہوگا، بھارتی درخواست قابلِ سماعت قرار نہیں دی جانی چاہیے تھی۔ بھارت مقدمے میں حقوق سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا مرتکب ہوا۔ یاد رہے کہ 4 جولائی کو دفتر خارجہ کے ذرائع نے کلبھوشن یادیو کے حوالے سے آئی سی جے کی جانب سے کیس کا فیصلہ 17 جولائی کو آنے کی تصدیق کی تھی۔بھارت نے کلبھوشن یادو کی بریت کیلئے عالمی عدالت کادروازہ کھٹکھٹایا تھا، تاہم کیس کی سماعت کے دوران بھارتی وکیل اس سوال کاجواب دینے میں ناکام رہے کہ کلبھوشن کے پاس 2 پاسپورٹ کیوں اور کیسے تھے۔قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ پاکستان کے حق میں آنے کا قوی امکان ہے جبکہ عدالت بھارت کو زیادہ سے زیادہ کلبھوشن تک قونصلر رسائی کا فیصلہ سنا سکتی ہے۔

یاد رہے کہ”را“ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔ بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں را کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد ‘را’ کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ اس کا پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔بعدازاں اپریل 2017 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت نے پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کی توثیق بعد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی تھی، اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے جسے سماعت کیلئے مقرر کرلیا گیا۔عالمی عدالت انصاف میں کی گئی درخواست میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیاتھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔بھارت نے دعوی کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا۔

خیال رہے کہ 13 دسمبر 2017 کو کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارت کی شکایت پر پاکستان کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں جوابی یاد داشت جمع کرائی گئی تھی۔جس کے بعد گزشتہ برس 18 مئی 2018 کو عالمی عدالت انصاف نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کردی ہے۔واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے کیے گئے دعووں پر اب تک پاکستان اور بھارت کی جانب سے 2، 2 جوابات داخل کروائے جاچکے ہیں۔ تاہم بھارت یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا کہ کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ سے کب اور کس طرح ریٹائر ہوا، کیونکہ پکڑے جانے کے وقت کلبھوشن کی عمر 47 برس تھی۔علاوہ ازیں بھارت کو اس بات کی وضاحت دینے کی ضرورت ہے کہ کلبھوشن یادیو کے پاس جعلی شناخت کے ساتھ اصلی پاسپورٹ کیسے آیا، جس کو اس نے 17 مرتبہ بھارت آنے جانے کے لیے استعمال بھی کیا اور اس میں اس کا نام حسین مبارک پٹیل درج تھا۔دسمبر 2017 میں پاکستان نے کلبھوشن کے لیے ان کی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کے انتظامات کیے تھے۔یہ ملاقات پاکستان کے دفترِ خارجہ میں ہوئی جہاں کسی بھی بھارتی سفیر یا اہلکار کو کلبھوشن کے اہلِ خانہ کے ساتھ آنے کی اجازت نہیں تھی۔مذکورہ ملاقات کے دوران کلبھوشن یادیو نے اپنی اہلیہ اور والدہ کے سامنے بھی بھارتی خفیہ ایجنسی را کے لیے جاسوسی کا اعتراف کیا تھا۔رواں برس 18 سے 22 فروری کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان کلبھوشن یادیو کیس کی عوامی سماعت مکمل ہوگئی تھی تاہم فیصلے کے لیے عدالت نے مشاورت شروع کردی تھی۔بعد ازاں 4 جولائی کو دفتر خارجہ کے ذرائع نے بتایا تھا کہ عالمی عدالت انصاف اس کیس کا فیصلہ 17 جولائی کو سنائے گی۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے