برطانیہ اورآئرلینڈ کی حکومتوں کے درمیان تارکین وطن کے معاملے پر اختلافات شدت اختیار کرگئے

برطانیہ اورآئرلینڈ کی حکومتوں کے درمیان تارکین وطن کے معاملے پر اختلافات شدت اختیار کرگئے

ڈبلن:برطانیہ اورآئرلینڈ کی حکومتوں کے درمیان تارکین وطن کے معاملے پر اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں آئرش حکومت کا الزام ہے کہ برطانیہ غیرقانونی تارکین وطن کو ان کے ملک میں دھکیل رہا ہے جس میں برطانوی پولیس معاونت کرتی ہے. آئرش حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ سرحدی علاقوں میں فرنٹ لائن امیگریشن انفورسمنٹ ڈیوٹی پر دوبارہ سو زیادہ افسران کو تعینات کررہی ہے آئرلینڈ کا دعوی ہے کہ ڈبلن پہنچنے والے پناہ کے متلاشیوں میں سے 90 فیصد برطانیہ کے مختلف علاقوں سے لندن کے زیرکنٹرول شمالی آئرلینڈ کے راستے ان کے ملک میں داخل ہوئے اور ان پناہ گزینوں کو سرحد پارکروانے میں برطانوی پولیس نے مددفراہم کی.
آئرلینڈ کے وزیراعظم سائمن ہیرس برطانیہ کو متنبہ کیا ہے کہ وہ شمالی آئرلینڈ میں پناہ گزینوں کے کیمپوں کی آڑ میں انہیں جمہوریہ آئرلینڈ کی سرحد کے قریب جمع کرنے کی کوششیں ترک کردے۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ نے گڈ فرائیڈے ایگریمنٹ کے تحت ” کامن ٹریول ایریا“ اور بریگزٹ انخلا کے معاہدے کے حصے کے طور پر سخت سرحدی انتظامات نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا آئرش حکومت کو اپنے وعدوں پر قائم ہے مگر برطانیہ کو بھی سرحدکا احترام کرنا چاہیے .

آئرش وزیراعظم نے کہا کہ برطانیہ الٹا ہم پر الزامات لگا رہا ہے کہ آئرلینڈ سے پناہ گزین برطانیہ میں داخل ہورہے ہیں ہمارے پاس نہ صرف ٹھوس ثبوت بلکہ مکمل اعدادوشمار موجود ہیں ہم بین الاقوامی معاہدوں میں پسند کی چیزیں چن کر باقی کو چھوڑ نہیں سکتے جیسا کہ برطانیہ کررہا ہے. ادھر برطانیہ کے ہوم آفس کا کہنا ہے برطانیہ پر آئرلینڈ سے غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کو قبول کرنے کی کوئی قانونی ذمہ داری نہیں ہے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ غیر قانونی ہجرت روکنے کے لیے ہمارا مضبوط نظام کام کررہا ہے.
برطانوی وزیراعظم رشی شونک کا کہنا ہے کہ سرحدوں پر نگرانی بڑھنا مسلے کا حل نہیں ہمیں مل کرکام کرنا ہوگا تاکہ ہم مشترکہ” ٹریول ایریا“ کے ارد گرد اپنی سرحدوں کو مضبوط کریں وزیراعم ہیرس نے کہا کہ رشی سونک بلدیاتی انتخابات سے پہلے والی سیاست کررہے ہیںجبکہ ہمارے لیے یہ اہم معاملہ ہے . آئرش وزیراعظم نے کہا کہ شمالی آئرلینڈ کے ساتھ سرحدپر افسران کی تعیناتی ہمارا فیصلہ ہے جوکہ ایک آزاد ملک کی حیثیت سے ہم کرسکتے ہیںادھر شمالی آئرلینڈ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آئرش وزیراعظم سے سرحد پر افسروں کی تعیناتی پر بات ہوئی ہے اور انہوں نے تعیناتی کو موخرکرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکرٹری ہوم آفس نے اس بات کا اعادہ کیا کہ برطانیہ کسی بھی دوبارہ داخلے یا واپسی کے انتظامات کو قبول نہیں کرے گا جو ہمارے مفاد میں نہ ہو واضح رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ تنازع پچھلے کچھ سالوں سے چل رہا ہے کہ آئرلینڈ برطانیہ کی جانب سے بجھوائے گئے پناہ گزینوں کو واپس برطانیہ بجھوادیتا ہے جسے برطانیہ ”غیرقانونی“قراردیتا ہے .
ٹین ڈاﺅننگ اسٹریٹ کا کہنا ہے کہ برطانیہ ناکام پناہ گزینوں کو آئرلینڈ سے واپس نہیں لے جائے گا اور ہم کبھی بھی یورپی یونین کے ساتھ وسیع تر ”بوجھ کی تقسیم“ کے معاہدے کو قبول نہیں کریں گے جس کا مطلب ہے اور بھی زیادہ پناہ گزینوں کو قبول کرنا گڈ فرائیڈے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد 26 سالوں میں آئرش حکومت نے زمینی سرحد سے انفراسٹرکچر اور چیک پوسٹوں کو ہٹا دیا تھا جبکہ پولیس افسران کو بھی سرحد سے واپس بلالیا گیا تھا برطانیہ کا کہنا ہے کہ ڈبلن نے بریگزٹ مذاکرات کے دوران اصرار کیاتھا کہ سرحد کو کھلا رہنا چاہیے جب 2019 میں، برطانیہ نے دونوں طرف سرحد سے پانچ سے دس میل پیچھے کسٹم کلیئرنس سینٹرز قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی تو اس وقت کے آئرش وزیر خارجہ سائمن کووینی نے اسے مسترد کر دیا تھا.
برطانیہ اور یورپی یونین نے برطانیہ اور شمالی آئرلینڈ کے درمیان آئرش سمندری سرحد بنانے پر اتفاق کیا ہے یہ تنازع آئرلینڈ میں سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی تعداد پر بڑھتے ہوئے سیاسی تنازع کے درمیان سامنے آیا ہے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یوکرین اور رونڈا کے پناہ گزینوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا ہے. پچھلے ہفتے آئرلینڈ کی کاﺅنٹی وکلو میں پناہ کے متلاشیوں کے لیے مظاہر ہ کرنے والوں نے پولیس پر حملہ کردیا تھا جس پر پولیس نے چھ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ‘ پچھلے سال ڈبلن میں مہاجرین مخالف فسادات ہوئے تھے جس کی وجہ آئرلینڈ کی حکومت نے پناہ کے متلاشیوں کو دی جانے والی امداد میں کٹوتی کی تھی یہ مسئلہ جون میں ہونے والے یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات پر غالب آنے کے لیے یقینی نظر آتا ہے.

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے