آسٹریلیا میں بھی سولر سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والوں کو کارروائی کا سامنا
آسٹریلیا میں بھی سولر سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والوں کو کارروائی کا سامنا ہے۔
آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز غیر معمولی تناسب سے شمسی توانائی پیدا کرکے گرڈ میں شامل کرنے پر بہت سے گھرانوں کو حکومت کی طرف سے کارروائی کا سامنا ہے۔ ریاست کے توانائی کے اداروں کا موقف ہے کہ گھروں میں بہت زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صورت میں گرڈ کی بجلی کی کھپت میں کمی سے لاگت میں اضافے کا مسئلہ کھڑا ہو رہا ہے۔
توانائی پیدا کرنے والے ریاستی ادارے گھرانوں پر اضافی بجلی پیدا کرنے کرکے گرڈ میں ڈالنے پر فیس بھی عائد کرسکتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ چارجز گھٹانے کے طریقے بھی سامنے آئے ہیں۔
گھروں میں پیدا ہونے والی شمسی توانائی گرڈ میں شامل ہونے سے گرڈ کی اپنی بجلی کے استعمال کی گنجائش کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں لاگت بڑھنے پر صارفین سے زیادہ وصولی کی جارہی ہے۔ اے ای آر کی طرف سے پانچ سالہ ٹیرف کے تحت صارفین سے شمسی توانائی گرڈ میں داخل کرنے کی فیس لینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
انرجی ریگیولیٹر کا کہنا ہے کہ بجلی کے نیٹ ورک کی ڈیزائننگ اس طور نہیں کی گئی کہ گھروں میں پیدا کی جانے والی بجلی بہت بڑے پیمانے پر گرڈ میں داخل کی جائے۔ دن کے اوقات میں بجلی کے دو طرفہ بہاؤ کے باعث سسٹم پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس کے 2 لاکھ 80 ہزار صارفین کے پاس سولر پینلز ہیں۔ 2030 تک مزید ایک لاکھ 80 ہزار صارفین کے پاس سولر پینلز لگے ہوں گے۔ صارفین کی پیدا کردہ بجلی قبول کرنا گرڈ کے لیے آسان نہیں۔ اس صورت میں پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے۔
حکومت نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ٹائمر والے برقی آلات کا استعمال بڑھاکر بجلی کے استعمال کو معقول حد میں رکھیں تاکہ بجلی کے بل بھی زیادہ آئیں۔ ایسے برقی آلات استعمال کرنے پر بھی زور دیا جارہا ہے جو اضافی بجلی کو گرڈ میں ڈالنے کے بجائے برداشت کرلیں۔