بجلی کے بلوں میں70فیصد اضافی چارجزوصول کیئے جانے کا انکشاف
اسلام آباد: پاکستان میں بجلی استعمال کرنے والے صارفین سے بلوں میں 70فیصد تک کپیسٹی چارجزاور خسارے کی مد میں وصول کیئے جارہے ہیں ‘پاور پروڈیوسراور تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے اپنے سسٹم اپ گریڈ نہ کرنے کی وجہ سے بجلی کی پیدواری لاگت بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ملک میں پڑوسی ملک بھارت میں بجلی کی فی یونٹ قمیت ساڑھے چھ روپے کے مقابلے میں کم سے کم اوسط بنیادی ٹیرف28روپے33پیسے جبکہ زیادہ سے زیادہ76روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی ہے.
امریکی نشریاتی ادارے”وائس آف امریکا“نے پاکستان میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بجلی بلوں میں صارفین کی استعمال شدہ بجلی کی قیمت صرف30فیصد ہوتی ہے جبکہ باقی70فیصد میں پاورپروڈیوسرکو اداکیئے جانے والے کپیسٹی چارجز اور اس شعبہ سے متعلقہ کمپنیوں کے اپنے نظام کو اپ گریڈ نہ کرنے کی وجہ سے ہونے والے نقصانات ہیں.
نیپرا کی اپنی رپورٹ کے مطابق سال 2023میں میں آئی پی پیزکو اضافی ادائیگیوں کے لیے صارفین سے 65فیصد بجلی کی ایسی پیدوار کے پیسے بلوں کے ذریعے وصول کیئے گئے جو انہوں نے استعمال ہی نہیں کی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومتی اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ریلیف عارضی نوعیت کا ہے اور ملک میں بجلی کا بیس ٹیرف بڑھنے سے ہر طبقہ بالخصوص کم آمدنی والے طبقات زیادہ متاثر ہوں گے.
وفاقی حکومت نے حال ہی میں بجلی کے نرخوں میںرد و بدل کیا ہے جس کے باعث پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے فی یونٹ بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے موجوہ حکومت نے پانچ جولائی کو ایک سال میں چوتھی بار بجلی کے نرخوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا اعداد و شمار کے مطابق اپریل 2022 سے ملک میں فی یونٹ بجلی کی اوسط قیمت میں 18 روپے اضافہ ہوچکا ہے بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے ساتھ ملک میں بجلی کا اوسط ٹیرف 29 روپے 33 پیسے جب کہ زیادہ سے زیادہ ٹیرف 76 روپے فی یونٹ تک پہنچ گیا ہے جبکہ پڑوسی ملک بھارت میں بجلی کا فی یونٹ تقریباً ساڑھے چھ روپے ہے.
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو ماہرین عام آدمی کے لیے ناقابل برداشت قرار دے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض پروگرام لینے کے لیے بجلی کے شعبے کے نقصانات کو آمدن بڑھانے کے لیے صارفین پر منتقل کررہی ہے تاہم اس کے باوجود ملک میں توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتا جارہا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، روپے کی گرتی قدر، کیپٹل پیمنٹس، گردشی قرضے یعنی سرکلر ڈیٹ، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں ہونے والے نقصانات، بجلی چوری، بلوں کی ریکوریز کم ہونا، بجلی کی کھپت میں موسم کے لحاظ سے فرق اور دیگر مسائل شامل ہیں.