سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ کیس کاتہلکہ خیز فیصلہ آگیا

نئی دلی: بھارت کی عدالت نے سمجھوتا ایکسپریس دھماکا کیس میں ملوث 4 ملزمان کو عدم ثبوت کی بناء پر بری کردیا۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت میں نیشنل انویسٹی گیشن کی عدالت نے مرکزی ملزم اسیم آنند سمیت دیگر ملزمان لوکیش شرما، کمل چوہان اور رجیندر چوہدری کو بری کردیا۔ عدالت نے یہ فیصلہ 11 مارچ کو محفوظ کیا تھا اور 18 مارچ کو سنایا جانا تھا۔

ایک پاکستانی خاتون راحیلہ جن کے والد اس حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے نے عدالت میں پاکستان سے گواہوں کو نہ بلوانے پر درخواست جمع کرائی تھی، تاہم بھارتی عدالت نے خاتون کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے آج سمجھوتا ٹرین دھماکا کیس کا فیصلہ بھی سنا دیا۔
عدالت نے پاکستانی خاتون راحیلہ کے وکیل مومن ملک کو بتایا کہ بھارت کی جانب سے سمجھوتا ایکسپریس دھماکے کے پاکستانی عینی شاہدین کو عدالت میں حاضر ہونے کے لیے پاکستانی ہائی کمیشن کو سمن جاری کردیئے گئے تھے، تاہم کسی کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔

نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے سمجھوتا ایکسپریس پر دھماکے کے الزام میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سوامی اسیم آنند، سنیل جوشی، لوکیش شرما، سندیپ ڈانگے، رام چندرا کالاسنگرا، رجیندر چوہدری اور کمل چوہان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

مذکورہ ساتوں ملزمان میں سے دھماکے کے ماسٹر مائنڈ سنیل جوشی کو 2007 میں قتل کردیا گیا تھا جب کہ رام چندرا اور سندیپ ڈانگے تاحال مفرور ہیں جب کہ دیگر 4 گرفتار ملزمان میں سے مرکزی شخص سوامی آسیم آنند پہلے ہی ضمانت پر رہا ہے۔

قبل ازیں اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم نے سمجھوتا ایکسپریس دھماکے کا الزام کالعدم طلبا تنظیم ’اسلامک موومنٹ آف انڈیا‘ کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا تاہم یہ کیس اسپیشل ٹیم سے لیکر 2010 میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے سپرد کر دیا گیا تھا۔

ملزمان کی بریت قابل مذمت ہے، پاکستان

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے سمجھوتا ایکسپریس سانحہ کے ملزمان کی بریت پر اپنے ردعمل میں کہا کہ سمجھوتا ایکسپریس پر دہشت گرد حملے میں 42 سے زائد پاکستانی شہید ہوئے،سجھوتا ایکسپریس کے ملزمان کی بریت نہایت قابل مذمت ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والی سمجھوتا ایکسپریس پر 18 فروری 2007 پر دھماکا خیز مواد سے حملہ کیا گیا تھا، حملے میں 68 مسافر ہلاک ہوگئے تھے جن میں زیادہ تر پاکستانی مسافر تھے۔ اس کیس میں 290 افراد نے گواہی دی تھی۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے