نوازشریف کی العزیزیہ ریفرنس میں 8 ہفتوں کیلئے سزا معطل ، ضمانت منظور

اسلام آباد :اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفنرنس میں سزا معطل کرتے ہوئے نوازشریف کی طبی بنیادوں پر 8 ہفتوں کیلئے ضمانت منظور کر لی ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوازشریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا جو کہ اب سنا دیا گیا ہے۔

عدالت عالیہ میں العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی جس دوران نیب نے العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کابیرون ملک علاج اور مستقل بنیادوں پر ضمانت کی مخالفت کی اور کہا کہ عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ٹائم فریم کے تحت سزا معطل کر دے ،
اس عرصے کے دوران نئی میڈیکل رپورٹ منگوا کر اس کاجائزہ لیاجائے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ہم پانچ یا سات سال کیلئے سزا معطلی نہیں مانگ رہے۔

دوران سماعت جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالت کے سامنے اس وقت چار آپشنز ہیں ،پہلا آپشن یہ معاملہ ایگزیکٹو کوبھجوائیں،دوسرا آپشن نیب کی تجویز پر ٹائم فریم کے تحت سزا معطل کریں ،تیسراآپشن آپ کی مان لیں یا چوتھا آپشن یہ ہے کہ درخواست خارج کردیں ۔نوازشریف نےخواجہ حارث نے ضمانت کا معاملہ ایگزیکٹو کو بھجوانے کی مخالف کی،

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے ڈاکٹر ز بھی صرف اپنی کوشش ہی کرتے ہیں ،خواجہ حارث نے کہا کہ ایک سیاسی حکومت کو معاملہ بھجوانا جو ہماری شدید مخالف ہے زیادہ مناسب نہیں ہوگا، ہم مرنا پسند کریں گے لیکن درخواست نہیں دیں گے ۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے نوازشریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کی ،جس دوران وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ، میڈیکل بورڈ ز کے ڈاکٹرز اور نیب کے اہلکار پیش ہوئے جبکہ نوازشریف کی جانب سے ان کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے ۔

نیب نے نوازشریف کی ضمانت پر بیرون ملک علاج کی ِمخالف کر دی ، ایڈیشنل پراسیکیورٹر نیب کا کہناتھا کہ نوازشریف کے بیرون ملک جانے پر اعتراض ہے ، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ درخواست گزار نے تو ملک سے باہر جانے کی بات ہی نہیں ،

ان کی استدعا ایک ہی چھت کے نیچے تمام سہولیات مہیاکرنے سے متعلق ہے ۔۔جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اگر نوازشریف کچھ ماہ میں ٹھیک ہو جاتے ہیں تو سزا کا کیا ہو گا ؟ نوازشریف نے وکیل نے کہا کہ تو پھر نیب کے پاس اختیار ہو گا کہ ضمانت منسوخی کیلئے درخواست دے سکیں۔

نوازشریف کی العزیز یہ ریفرنس میں سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کا آغاز ہو اتو عدالت نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو روسٹر م پر بلایا اور جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون ہے کہ مریض قیدی کا خیال رکھا جانا چاہیے ،

نوازشریف نے تو درخواست دائر کر دی لیکن بہت سے بیمار قیدی ایسے ہیں جو درخواست دائر نہیں کر سکتے ، کیس سے متعلق آگاہ کیا جائے کہ قیدیوں کیلئے کیا اقدامات کیے گئے ہیں ، ہم قیدیوں کیلئے راہ دکھانا چاہتے ہیں ۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے روسٹر م پر آ کر عدالت کو بتایا کہ میں پہلا وزیراعلیٰ ہوں جس نے ایک سال میں آٹھ جیلوں کے دورے کیے ہیں ، جیل ریفارمز پر کام شروع ہو چکاہے ،آٹھ ہزار قیدیوں کو فائدہ پہنچا ہے ،پی ٹی آئی کی حکومت کو وفاق اور صوبے میں ایک سال ہوا ہے ۔

عثمان بزدار کا کہناتھا کہ میں خود بھی وکیل ہوں ۔عثمان بزدار نے عدالت میں بتایا کہ نوازشریف کا علاج جاری ہے اور یقین دہانی کروائی کہ انہیں تمام طبی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں ۔ان کا کہناتھا کہ نوازشریف کا بھر پور خیال رکھ رہے ہیں ۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا کہناتھا کہ مریض قیدیوں سے متعلق بھی بھر پور توجہ ہے ، یہ کیس ہم سے متعلقہ نہیں ، نوازشریف صرف ہماری حراست میں ہیں ، نوازشریف کا خیال رکھنے کیلئے بھر پور اقدامات کیے ہیں ، ہم پیکج لا رہے ہیں جس سے چیزیں دنوں میں گراونڈ پر آئیں گی ۔

وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ عدالت کا احترام کرتے ہیں ، قانونی اور آئینی پیچیدگیاں تھیں لیکن اس کے باوجود بھی چیف منسٹر عدالت میں پیش ہوئے ہیں ۔عدالت نے بعد عثمان بزدار کو جانے کی اجازت دیدی ۔

یاد رہے کہ نوازشریف کو چوہدری شوگر ملز کیس میں لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت مل چکی ہے جبکہ شہبازشریف کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی طبی بنیادوں پر منگل تک عبوری ضمانت دینے کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے منظور کر لیا تھا جو کہ آج ختم ہو رہی ہے ۔

میڈیکل بورڈ نے نوازشریف کی صحت سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی،ڈاکٹرز نے عدالت میں بتایا کہ انتہائی پروفیشنل ڈاکٹرز پر مشتمل میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیاہے ، نوازشریف کو میڈیکل ٹریٹمنٹ کے دوران ہارٹ اٹیک کی شکایت ہوئی ، نوازشریف کے پلیٹ لیٹس کی تعداد بہت کم ہے ، عام آدمی میں پلیٹ یلٹس کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہونی چاہیے ، ایک بیماری کا حل تلاش کرتے ہیں تو دوسری بیماری کا مسئلہ ہو جاتاہے۔

خواجہ حارث نے عدالت میں میڈیکل بورڈ کی رپورٹ سے حوالہ جات پیش کرتے ہوئے کہا کہ فالج سے بچاو کے لیے پلیٹ لیٹس بڑھانا ضروری ہے، قدرتی طور پر نواز شریف کے پلیٹ لیٹس بڑھ نہیں رہے،پلیٹ لیٹس فوری بڑھائیں توہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے،

پلیٹ یلٹس اس وقت بھی مصنوعی طریقے سے بڑھائے گئے ہیں، میاں صاحب کوکچھ دن پہلے بھی اسی وجہ سے ہارٹ اٹیک ہوا،نوازشریف اس وقت زندگی کی جنگ لڑرہے ہیں،نوازشریف دل،گردے، اسٹروک،شریانوں کے سکڑنے کاشکار ہیں۔

خواجہ حارث کا کہناتھا کہ نوازشریف کے انجائنا کی وجہ سے تمام بیماریوں کا علاج بیک وقت ممکن نہیں، 26 اکتوبر کی رپورٹ کے مطابق نوازشریف کا دل مکمل طور پر خون پمپ نہیں کررہا، نوازشریف کو ایک چھت کے نیچے تمام میڈیکل سہولیات ملنا ضروری ہیں،ہمیں ڈاکٹرز کی نیت وقابلیت پر شبہ نہیں مگر نتائج سے بورڈ خود مطمئن نہیں،

سزا پر عملدرآمد کرانا ہے تو اس کیلئے نوازشریف کا صحت مند ہونا ضروری ہے، نوازشریف کو ان کی مرضی کے ڈاکٹرز سے علاج کرانے کی اجازت ملنی چاہیے۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اگر نوازشریف کچھ ماہ میں ٹھیک ہو جاتے ہیں تو سزا کا کیا ہو گا ؟ نوازشریف نے وکیل نے کہا کہ تو پھر نیب کے پاس اختیار ہو گا کہ ضمانت منسوخی کیلئے درخواست دے سکیں ، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 401 کے تحت ایگزیکٹو خود ایسے کام کیوں نہیں کرتا ؟جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کیا س میں کوئی رکاوٹ ہے ؟ ،حکومت کے پاس بیمار قیدی کیلئے اختیارات موجود ہیں۔ نیب نے کہا کہ نوازشریف کی صحت پر ڈاکٹر ز کی رائے محترم ہے وہی ایکسپرٹ ہیں ۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اسلام آباد میں سزا یافتہ کی سزا معطلی وفاق کے زیر اثر آئے گی یا پنجاب کے ؟ اڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ یہ معاملہ وفاق اور پنجا ب دونوں کے زیر اثر آتا ہے ، ، عدالت نے ایڈیو کیٹ جنرل اسلام آباد کو رسٹروم پر بلا لیا ۔

عدالت نے کہا کہ اسلام آباد کے قیدیوں پر ایسی صورت یں فیصلہ کون کرتا ہے ؟ ۔ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد طارق جہانگیر ی نے بتایا کہ صوبائی حکومت ہی اسلام آبادکے قیدیوں پر بھی فیصلہ کرتی ہے، اسلام آباد میں نہ جیل،نہ ہی جیل قوانین ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آج تک کسی نے سوچا نہیں کہ اسلام آباد میں بھی جیل ہونی چاہیے،اسلام آباد میں بھی جلدی جلدی جیل بنائیں ۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ٹائم فریم کے تحت سزا معطل کر دے ، اس عرصے کے دوران نئی میڈیکل رپورٹ منگوا کر اس کاجائزہ لیاجائے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ہم پانچ یا سات سال کیلئے سزا معطلی نہیں مانگ رہے ۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ جب سے اپیل زیرسماعت ہے دلائل ہوتے تواب تک اس کافیصلہ ہوجاتا،ابھی تک جج وڈیو اسکینڈل پر بھی سماعت مکمل نہیں ہو سکی ۔ خواجہ حارث نے کہا کہ آپ اگر آرڈر شیٹس دیکھیں تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں،جسٹس محسن اختر کیانی کا خواجہ حارث سے مکالمہ ہوا کہ ہم آپ کوالزام نہیں دے رہے۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے