افسوسناک ہے آرمی چیف کو سمری کی تیاری میں خود مشاورت دینا پڑی.چیف جسٹس

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا‘ توسیع پرفیصلہ آج دوپہر ایک بجے سنایا جائے گا عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ 4 نکات پر مشتمل تحریری بیان جمع کرائیں.
عدالت نے کہا کہ اگر آپ کو قانونی سازی کے لیے درکار ہیں تو ہم 3ماہ کی مشروط توسیع کے احکامات جاری کردیتے ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ قانون سازی کے لیے 3ماہ کی بجائے6ماہ کا وقت دیا جائے چیف جسٹس نے کہا کہ افسوسناک ہے آرمی چیف کو سمری کی تیاری میں خود مشاورت دینا پڑی.

جس پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے مشاورت کے لیے تھوڑی دیر کا وقفہ لیا جس کے بعد چیف جسٹس نے عدالت میں آکر بتایا کہ فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے . چیف جسٹس نے کہا حکومت پہلی بارآئین پرواپس آئی ہے، جب کوئی کام آئین کے مطابق ہوتوہمارے ہاتھ بندھ جاتے ہیں، عدالت نے توسیع کردی تویہ قانونی مثال بن جائےگی، لگتا ہے تعیناتی کے وقت حکومت نے آرٹیکل243میں پڑھتے ہوئے اضافہ کردیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جہاں مدت کاذکرنہ ہو تو حالات کے مطابق مدت مقررہوتی ہے، سوشل میڈیا کسی کے کنڑول میں نہیں.

جسٹس آصف کھوسہ نے مزید کہا آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں کرنا چاہیے، آپ تین سال کے لیے توسیع دے رہے ہیں، کل کوئی قابل جنرل آئے گاتوپھرکیا30سال کے لئے توسیع دیں گے، جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پہلے توکسی کوایک سال کسی کو2سال کی توسیع دی گئی جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کل ہم کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائرہوتے ہیں، آپ کہہ رہے تھے کہ نہیں ہوتے، پھر آج کہہ رہے ہیں کہ ہو رہے ہیں.

چیف جسٹس نے کہا آرمی ایکٹ میں ابہام ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پارلیمنٹ کو اس ابہام کودورکرنا ہے. چیف جسٹس نے کہا کہ آپ رولز میں ترمیم کررہے ہیں، پھر ہم کو ایڈوائزری کردار لکھ دیا، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ابھی جاکرقانون بناکرآئیں، جوقانون72سال میں نہیں بن سکتاوہ اتنی جلدی نہیں بن سکتا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا اس وقت میرے پاس کوئی قانون نہیں سوائے دستاویزکے، ہم کوشش کررہے ہیں کہ معاملے پرکوئی قانون بنائیں.

سماعت کے آغاز میں ہی سپریم کورٹ نے جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن طلب کرلیا، ساتھ ہی سابق فوجی سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویز بھی طلب کرلی‘چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جنرل (ر) کیانی کی توسیع کس قانونی شق کے تحت کی گئی، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ جنرل (ر) پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں کیا پینشن ملی تھیں.

ساتھ ہی سپریم کورٹ نے 15 منٹ کا وقفہ کردیا چیف جسٹس نے کہا کہ 15 منٹ میں دونوں چیزیں فراہم کریں تب تک دیگر کیسز سن لیتے ہیں‘عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے آپ نے کہا ہے جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگر آرمی جنرل ریٹائر نہیں ہوتا تو جنرل راحیل شریف کس رول کے تحت ہوئے.

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے اگر ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی، جائزہ لیں گے کہ جنرل (ر) کیانی کی توسیع کن بنیادوں پر ہوئی تھی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پر عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ دستاویزات لے آئیں پھر آپ کو تسلی سے سن لیں گے بعد ازاں مختصر سے وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوگیا ہے.
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمری میں تو عدالتی کارروائی کا بھی ذکر کیا گیا ہے، آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں، ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیں‘چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں، سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں، تعیناتی قانونی ہے یا نہیں وہ جائزہ لیں گے، آج سے تعیناتی 28 نومبر سے کردی.

انہوں نے ریمارکس دیے کہ آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں، جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے، لگتا ہے اس بار کافی سوچ بچار کی گئی ہے، تعیناتی ہوئی ہی آئین کے مطابق ہے. ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی ایڈوائس والا حصہ سمری سے نکالیں، صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے اسی دوران جسٹس منصور نے نکتہ اٹھایا کہ 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سمری میں آرمی چیف کی تنخواہ کا ذکر ہے نہ مراعات کا تذکرہ ہے.
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے توسیع ہوتی رہی اور کسی نے جائزہ نہیں لیا، کوئی دیکھتا نہیں کہ کنٹونمنٹ میں کیا ہو رہا ہے، کس قانون کے تحت کوئی کام ہو رہا ہے، اب آئینی ادارہ اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے، آئینی عہدے پر تعیناتی کا طریقہ کار واضح لکھا ہونا چاہیے.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سی آئی اے کے ایجنٹ کہا گیا، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا‘اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ففتھ جنریشن وار کا حصہ ٹھہرایا گیا، یہ ہمارا حق ہے کہ ہم سوال پوچھیں.

اسی دوران جسٹس منصور نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھیں ہوں گے، آپ تجویز کریں آرمی قوانین کو کیسے درست کریں‘سماعت کے دوران ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نوٹیفکیشن میں مدت 3 سال لکھی گئی ہے، اگر زبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے، ایک واضح نظام ہونا چاہیے جس کا سب کو علم ہو، 3 سال تعیناتی اب ایک مثال بن جائے گی، ہو سکتا ہے اگلے آرمی چیف کو حکومت ایک سال رکھنا چاہتی ہو.

اسی دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ واضح ہونا چاہیے جنرل کو پینشن ملتی ہے یا نہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائر ہوجاتا ہے، جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ کل تو آپ کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائر نہیں ہوتا. ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سے بہتر کوئی فورم نہیں جو سسٹم ٹھیک کر سکے،
جس پر چیف جسٹس نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کو اپڈیٹ کرے تو نئے رولز بنیں گے‘اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کابینہ کے سامنے رکھ کر ضروری تبدیلیاں کریں گے،جس پر جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی طے کرلیا جائے کہ آئندہ توسیع ہوگی یا نئی تعیناتی.

عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں 18 مختلف غلطیاں مجھے نظر آتی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ غلطیوں کے باوجود آئین ہمیں بہت محترم ہے.چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت پہلی بار آئین پر واپس آئی ہے، جب کوئی کام آئین کے مطابق ہو جائے تو ہمارے ہاتھ بندھ جاتے ہیں،تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالت کا کندھا استعمال نہ کیا جائے ورنہ آئندہ کے لیے بھی سپریم کورٹ کا نام استعمال ہوگا.

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 243 میں 3 سال تعیناتی کا ذکر نہیں، 3 سال کی تعیناتی کی مثال ہوگی لیکن یہ قانون نہیں،عدالت نے توسیع کر دی تو یہ قانونی مثال بن جائے گی، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جہاں مدت کا ذکر نہ ہو وہاں حالات کے مطابق مدت مقرر ہوتی ہے‘اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے تعیناتی کے وقت حکومت نے آرٹیکل 243 میں پڑھتے ہوئے اس میں اضافہ کر دیا، آرمی چیف کو توسیع دینا آئینی روایت نہیں، گزشتہ 3 آرمی چیف میں سے ایک کو توسیع ملی دوسرے کو نہیں، اب تیسرے آرمی چیف کو توسیع ملنے جا رہی ہے.

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 243 کے مطابق تعیناتی کرنی ہے تو مدت نکال دیں، ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کم از کم آرٹیکل 243 پر تو مکمل عمل کریں، نہ تنخواہ کا تعین کیا گیا نہ ہی مراعات کا ذکر ہے.اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ غیر معینہ مدت کے لیے بھی تعیناتی نہیں ہو سکتی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے بھی جنرل باجوہ کو غیر معینہ مدت کے لیے تعینات کیا گیا.

سماعت کے دوران جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی توسیع کی دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں‘اس کو چیف جسٹس نے دیکھا اور کہا کہ کہیں نہیں لکھا جنرل (ر) پرویز کیانی کو توسیع کس نے دی تھی،جس قانون کے تحت توسیع دی گئی اس کا بھی حوالہ دیں، اتنے اہم عہدے کے لیے تو ابہام ہونا ہی نہیں چاہیے.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جنرل راحیل کو تو پنشن مل رہی ہے، رولز میں تو جنرل کی پنشن کا ذکر ہی نہیں، ملک پر حکومت کرنے والے ہمیں عزیز ہیں لیکن آئین اور قانون ہمیں سب سے بالاتر ہے‘بعد ازاں عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آج مختصر فیصلہ جاری کریں گے،

6 ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کرلے. پر سپریم کورٹ کے احاطے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہیں جبکہ آنے والوں کوسخت چیکنگ کے بعدداخلے کی اجازت دی جارہی ہے اور غیر متعلقہ اشخاص کو سپریم کورٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں.

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے