برطانوی عام انتخابات؛ کنزرویٹو پارٹی کو واضح اکثریت مل گئی
لندن: سیاسی عدم استحکام سے دوچاربرطانیہ میں عام انتخابات کے نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے جب کہ کنزرویٹو پارٹی کو واضح اکثریت مل گئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق پانچ سال کے دوران برطانیہ میں یہ تیسرا الیکشن ہے۔ پارلیمنٹ کی 650 سیٹوں کیلئے ووٹنگ ہوئی جس میں بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی کو واضح اکثریت مل گئی۔ تاحال کنزرویٹوپارٹی نے 358 جب کہ لیبرپارٹی نے 203 سیٹیں حاصل کرلی ہیں۔
ایگزٹ پول
ایگزٹ پولزکے مطابق کنزرویٹوپارٹی کو 368 نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ ایگزٹ پول کے تحت جب بھی کوئی ووٹر اپنا ووٹ ڈال کر باہر نکلتا تو اسے ایک فرضی بیلٹ پیپردے کر اپنی رائے کے اظہار کی درخواست کی جاتی ہے جس سے واضح طورپرممکنہ نتائج کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
لیبرپارٹی کے سربراہ پارٹی قیادت سے مستعفی
لیبرپارٹی کے سربراہ جیرمی کاربن نے پارٹی کی قیادت چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن مہم میں بڑھ چڑھ کرحصہ نہیں لے سکا۔
برطانیہ کے عام انتخابات میں پہلی بار70 مسلمان امیدوارحصہ
دوسری جانب برطانیہ کے عام انتخابات میں پہلی بار70 مسلمان امیدوار حصہ لے رہیں جب کہ گذشتہ انتخابات میں یہ تعداد 47 تھی۔ ان امیدواروں کی اکثریت کا تعلق پاکستان، بنگلا دیش اور کُرد نسل سے ہے، امید کی جارہی ہے کہ ان میں سے 24 امیدوار پارلیمنٹ میں پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے جو کہ اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہوگی۔
لیبر پارٹی نے ریکارڈ 33 پاکستانی نژاد برطانوی امیدواروں کو ٹکٹیں دی ہیں۔ ان میں بیڈفورڈ سے محمد یاسین، برمنگہم سے شبانہ محمود، بولٹن سائوتھ ایسٹ سے یاسمین قریشی اورمانچسٹرسے افضل خان شامل ہیں۔ فیصل رشید، ڈاکٹر روزینہ ایلین خان، روشن آرا علی اور روپا حق کے بھی الیکشن جیتنے کی امید ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے ساجد جاوید، نصرت غنی اور ثاقب بھٹی سرفہرست پاکستانی نثراد برطانوی امیدوارہیں۔
لبرل ڈیموکریٹ پارٹی نے کبھی بھی کسی پاکستانی نژاد برطانوی کو ٹکٹ نہیں دی، لیکن اس بار دو خواتین حنا بخاری اور حمیرہ ملک اس پارٹی کے ٹکٹ پرامیدوارہیں۔
برطانوی پونڈ کی قدر میں تین فیصد اضافہ
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ایگزٹ پول کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی برطانوی پونڈ کی قدرمیں تین فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یورو کے مقابلے میں پونڈ کی قدرساڑھے تین سال کی بلند ترین سطح پرپہنچ گئی ہے۔
’برطانیہ کو یورپی یونین سے باہر نکال لیں گے‘
وزیراعظم بورس جانسن نے بریگزٹ کو اپنی الیکشن مہم کا مرکزقراردیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر2019 کے عام انتخابات میں ایک اور موقع دیا گیا تو وہ 31 جنوری 2020 تک برطانیہ کو یورپی یونین سے باہر نکال لیں گے۔
قبل ازوقت انتخابات کی وجہ
یورپی یونین سے الگ ہونے کا معاملہ یعنی بریگزٹ ہی اس عام انتخابات کا سب سے اہم مسئلہ ہے جس کی وجہ سے دوبارہ الیکشن کا انعقاد کرنا پڑا ہے۔ 2016 کے بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس پرعملدرآمد ڈیڈلاک کا شکار رہا ہے اور یوں حالیہ عام انتخابات کے بعد صورتحال واضح ہونے کے امکانات ہیں۔
اس مسئلے پربرطانیہ کی دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان اختلافات شامل تھے۔ موجودہ وزیرِ اعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی برطانیہ کا یورپی یونین سے فوری انخلا چاہتی ہے جبکہ لیبرپارٹی کے سربراہ جیرمی کوربن اس معاملے پر ایک اور ریفرنڈم کے خواہاں ہیں۔