مشین گن اور 200 گولیوں سے لیس، چھوٹا لیکن ہلاکت خیز مسلح ڈرون

استنبول: ترکی کی ایک فرم نے ’’سونگار‘‘ کے نام سے مسلح ڈرون بنالیا ہے جو ایک عدد مشین گن اور 200 گولیوں سے لیس ہے جبکہ اس کا نشانہ اتنا زبردست ہے کہ 656 فٹ کی دوری سے کسی بھی انسان کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنا سکتا ہے۔ ترک فوج نے یہ ڈرون خرید لیا ہے جسے آئندہ سال کے دوران فوجی دستوں کے استعمال میں دینا شروع کردیا جائے گا۔

سونگار مسلح ڈرون کو ترک کمپنی اسیسگارڈ نے تیار کیا ہے۔ کمپنی ویب سائٹ پر اگرچہ یہ تو نہیں بتایا گیا کہ ایک مرتبہ ایندھن بھرے جانے (یا مکمل چارج ہوجانے) کے بعد کتنی دیر تک پرواز کرسکتا ہے، لیکن اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ ایک ڈرون آپریٹر اسے 10 کلومیٹر کی دوری سے بھی آپریٹ کرسکتا ہے۔ پوری طرح مسلح ہوجانے کے بعد پرواز کے وقت یہ زیادہ سے زیادہ 25 کلوگرام وزنی ہوسکتا ہے اور 2800 میٹر کی اونچائی تک پہنچ سکتا ہے۔

اس میں دو کیمرے نصب ہیں جن میں سے ایک پائلٹ کیمرا ہے جس کی مدد سے ڈرون آپریٹر اس کے ارد گرد اور راستے پر نظر رکھ سکتا ہے۔ اس کا زُوم لینس عکس کو 10 گنا تک بڑا کرکے دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسرا کیمرا مشین گن کی نال پر نصب ہے جو ہدف پر نشانہ باندھتے وقت کام آتا ہے۔

بند حالت میں یہ 65 سینٹی میٹر چوڑا، 62 سینٹی میٹر لمبا اور 75 سینٹی میٹر اونچا ہوتا ہے لیکن دورانِ پرواز، جب اس کی پنکھڑیاں کھل کر گھومنے لگتی ہیں، تو اس کی چوڑائی بڑھ کر 105 سینٹی میٹر یعنی ایک میٹر سے بھی کچھ زیادہ ہوجاتی ہے۔

اگر صرف مسلح ڈرون کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ کوئی نیا کام نہیں، لیکن مختصر جسامت والے مسلح ڈرونز میں یہ بہت منفرد ہے کیونکہ اس میں خاص طور پر دورانِ پرواز نشانہ درست رکھنے کےلیے دو نظام نصب ہیں۔ واضح رہے کہ فائرنگ کرتے وقت مخالف سمت میں گولیوں کا دھکا (ریکوائل) نشانہ خطا کرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس سے بچنے کےلیے پہلا نظام حساس آلات سے لیس ہے جو اس کی لرزش اور تھرتھراہٹ کو نوٹ کرتے ہوئے درست کرتے رہیں جبکہ دوسرا نظام ایک روبوٹ بازو (روبوٹک آرم) پر مشتمل ہے جو مشین گن کی نال کو بار بار درست نشانے کی طرف واپس لاتا رہتا ہے۔

چھوٹی جسامت والے مسلح ڈرونز کا معاملہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ سیاست کا بھی ہے۔ گزشتہ ماہ امریکی وزیرِ دفاع نے چین پر الزام لگایا تھا کہ وہ مشرقِ وسطی کے مختلف ممالک کو ایسے ہی چھوٹے مسلح ڈرونز فروخت کررہا ہے لیکن چین نے بھرپور الفاظ میں اس الزام کی تردید کردی تھی۔

دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل کی جنگوں میں سپاہی انسانوں کا براہِ راست کردار شاید بہت کم ہوجائے کیونکہ بہت ممکن ہے کہ روبوٹس اور ڈرونز جیسی ٹیکنالوجیز اتنی ترقی یافتہ ہوجائیں کہ پھر عملی جنگ اور جنگی ویڈیو گیم میں کچھ خاص فرق نہ رہ جائے۔ تاہم یہ خیال بھی اب تک صرف ایک مفروضہ ہے جس کے حقیقت بننے یا نہ بننے کا فیصلہ آنے والے برسوں ہی میں ہوسکے گا۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے